Lorem ipsum dolor sit amet, consectetuer adipiscing elit, sed diam nonummy nibh euismod tincidunt ut laoreet dolore magna aliquam erat volutpat. Ut wisi enim ad minim veniam, quis nostrud exerci tation ullamcorper suscipit lobortis nisl ut aliquip ex ea commodo consequat. Duis autem vel eum iriure dolor in hendrerit in vulputate velit esse molestie consequat, vel illum dolore eu feugiat nulla facilisis at vero et accumsan et iusto odio dignissim qui blandit praesent luptatum zzril delenit augue duis dolore te feugait nulla facilisi.
اردو انجمن برلن URDU FÖDERVEREIN BERLIN e.V.
*President: Arif Naqvi *Vice President : Anwar Zaheer Rahber *Secretary: Uwe Feilbach
____________________________________________________________________________________________--
عصمت چغتائی اور راجندر سنگھ بیدی کی صد سالہ سالگرہ کی
شاندار تقریب
بڑی تعداد میں اردو ۔ جرمن، ہندی ، پنجابی ، بنگالی شیدائے اردو کا اجتماع
مہمانِ خصوصی:ڈاکٹر عمار رضوی کھنئو، بھارت،مہمان محترمہ فرزانہ فرحت اور فرخندہ رضوی )پاکستان، برطانیہ
اردو زبان و ادب کےفروغ کے لئے الکٹرانک ذرائع کا استعمال کرنا چاہئے
عمار رضوی کا مشورہ
بروز اتوار 31 مئی کو جرمنی کی راجدھانی برلِن میں پالاس یعنی محل نامی عمارت میں اردو انجمن برلن کی طرف سے عظیم افسانہ نگار عصمت چغتائی اور راجندر سنگھ بیدی کی صد سالہ سالگرہ کے حوالے سے ای شاندار تقریب کی گئی۔ مہمان خصوصی کی حیثیت س لکھنئو ، ہندوستا سے ڈاکٹر عمار رضوی اور مہمانِ اعزازی کی حیثیت س پاکستان برطانیہ سے محترمہ فرزانہ فرحت اور محترم فرخندہ رضوی نے شرکت فرمائی۔ ڈاکٹر عمار رضوی نے مشاعرہ کی صدارت بھی فرمائی۔ تقریب میں اردو، جرمن، پنجابی، بنگالی زبانوں کے شیدائیوں نے عصمت چغتائی اور راجندر سنگھ بیدی کو خراج عقیدت پیش کئے اور اردو ادب میں انسانیت، امن اور دوستی سے بصیرت حاصل کی اور اردو شاعری اور گیتوں سے لطف اندوز ہوئے ۔
تقریب کا آغاز بنگالی مغنی دھیرج رائے کی مدھر آواز میں اردو گیتوں اور عصمت اور بیدی کی زندگی اور تخلیقات کے بارے میں سارہ ظہیر کی تیار کی ہوئی مختصر دستاویزی فلموں سے کیا گیا۔
اس کے بعد اردو انجمن کےصدر ڈر عارف نقوی نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر عمار رضوی ہمیشہ اردو کی بقا اور فروغ کے لئے لڑتے رہے ہیں۔ وہ اتر پردیش میں دو بار ایکٹنگ چیف منسٹر رہے ہیں اور مدتوں وزیر رہے ہیں جس کے دوران ان کی کوشش سے اردو کو سرکاری درجہ دینے کے لئے تجویز اسمبلی میں منظور کی گئی ہے اور تین ہزار اردو اساتذہ کا تقرر کیا گیا ہے۔ انھوں نے اپنی جائے پیدائش محمود آباد میں ایک بڑا سائنس اور ٹکنالوجی کا انسٹی تیوٹ قائم کیا ہے جس میں ساڑھے چار ہزار طلباء ہیں اور اب وہ یونیورسٹی بننے جا رہا ہے۔پاکستانی شاعرہ محترمہ فرخندہ رضوی کا تعارف کراتے ہوئے عارف نقوی نے بتا یا کہ ان کی چار کتابیں شائع ہو چکی ہیں، جبلہ محترمہ فرزانہ فرحت کی دو کتابیں داد تحسین حاصل کر چکی ہیں۔
جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے ڈاکٹر عمار رضوی نے اس بات پر مسرت کا اضہار کیا کہ اتنی بڑی تعداد میں مختلف زبانوں اور شعبوں کے لوگ اردو انجئمن کے جلسے میں شریک ہیں، جو دکھاتا ہے کہ اردو زبان کی خوبصورتی ساری دنیا میں اس کی مقبولیت کو بڑھا رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے اور زیادہ فروغ کے لئے کمپیوٹر ٹکنالوجی سے فائدہ اٹھا یا جائے۔ عمار صاحب نے کہا کہ اردو کی نشو نما میں جرمنی کا بھی رول رہا ہے کیونکہ ہمارے ادب کی ارتقائی منزلوں میں اردو شعر و سخن کو فکری اعتبار سے بلندیوں پر پہنچانے والی شخصیت علامہ اقبال کی ذہنی و فکری تربیت اس زمین پر ہوئی ہے۔ دیار غیر کے دور دراز ملکوں میں اور نئی نئی بستیوں میں خصوصاً غیر اردو داں حلقوں میں ، یہاں کی تہذیب و تمدن میں یہ زبان بے پناہ مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔ اردو زبان کی اس مقبولیت اور شہرت کو بڑھانے میں جرمنی میں عارف نقوی ،انوراور ظہیر اور ان کے دیگر ساتھیوں کی پر خلوص خدمات قابلِ قدر ہیں۔ ڈاکٹر عمار رضوی نے دعوت دی کہ اردو انجمن برلن کا ایک سیشن اس سال لکھنئو میں کیا جائے۔ اس دعوت کو اردو انجمن کے اراکین نے بخوشی شکرئے کے ساتھ قبول کیا۔ راجندر سنگھ بیدی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے عمار رضوی نے کہا کہ بیدی نے اپنے افسانوں کا تانا بانا زندگی کے تلخ ترین حقائق سے بُنا ہے۔ لیکن ان کے یہاں تلخی یا بیزاری نہیں ملتی۔وہ زندگی کے تاریک گوشوں میں محبت، ہمدردی اور انسانیت کی کرن دیکھتے ہیں۔
ؑسمت چغتائی پر تبصرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ عصمت کی نثر اپنے اندر بے ساختگی اور تیکھے پن کے علاوہ تخلیقی جوہر رکھتی ہے۔ عمار ؑمار صاحب کی تقریر کا جرمن زبان میں ترجمہ اردو انجمن کے سکریٹری اُووے فائلباخ نے کیا۔
محترمہ عشرت معین سیما نے عصمت چغتائی کے افسانوی فن کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہوئے خاص طور سے عورتوں کے مسائل پر ان کی تحریروں کے حوالے دئے۔ جبکہ اداکار ارشاد پنجتن نے بیدی اور عصمت سے اپنی ملاقاتوں کا ذکر کرتے ہوئے بیدی کے کئی دلچسپ لطیفے سنائے۔
جلسے میں عارف نقوی کی اردو اور انگریزی زبان میں کتابون کیرم سے رشتہ اور عشرت معین سیما کی کتاب سفر نامہ اٹلی کی جانب گامزن کی رسم اجراء بھی کی گئی۔ انور ظہیر رہبر نے عارف نقوی کی کتاب پر مضمون پڑھا جس کا جرمن ترجمہ سارہ ظہیر نے پیش کیا۔ جبکہ عشرت معین سیما کی کتاب اٹلی کی جانب گامزں پر تفصیل سے تبصرہ کرتے ہوئے عارف نقوی نے انھیں اس بہترین پیشکش کے لئے مبارکباد دی اور کہا کہ یہ ایک دلچسپ اور معلومات سے بھر پور داستان ہے جسے پڑھکر دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔
جلسے میں پنجابی زبان کے سکھوں کے ایک ٹی وی چینل کے نمائندوں نے بھی اپنے خیالات ظاہر کئے اور اردو زبان و ادب تعریف کی اور اپنے تعاون کا یقین دلایا۔
پہلے دور کا اختتام میاں اکمل لطیف اور آصف خاں نے اردو کلاسیکی غزلیں اور گیت بہترین سروں اور طبلے کی تھاپ کے ساتھ پیش کرتے ہوئے کیا۔ اور ایسا شاندار سماں باندھا کہ لوگوں کی فرمائشیں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔
اس کے بعد مشاعرہ کا دور شروع ہوا جس کی صدارت ؎ڈاکٹر عمار رضوی نے فرمائی۔ مشاعرہ میں اردو شاعروں کے ساتھ ، ہندی، پنجابی، بنگالی شعراء نے بھی اپنے کلام پیش کئے۔ جن میں خاص طور سے فرخندہ رضوی فرزانہ فرحت، سوشیلا شرما، عشرت معین سیما، انور ظہیر، ارشاد خاں اور عارف نقوی وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ جلسے میں نظامت کے فرائض محترمہ نایاب خواجہ اور محترمہ جاریہ نے نہائت خوبی سے ادا کئے۔
جرمنی کی راجدھانی برلن میں جشنِ کرشن چندر، خواجہ احمد عباس اور احسان دانش
کرشن چندر، خواجہ احمد عبـاس اور احسان دانش کاجرمنی کے دانشور حلقوں میں کسقدر احترام کیا جاتا ہے اس کا اندازہ یکم جون 2014 کو جرمنی کی راجدھانی برلن میں ہوا، جب ان تینوں ادیبوں کی صد سالہ سالگرہ منانے کے لئے ایک یادگار تقریب میں بڑی تعداد میں ہندوستانیوں، پاکستانیوں کے ساتھ جرمن دانشوروں نے شرکت کی۔
یہ زوردار تقریب اردو انجمن برلن کی طرف سے شہر کے مرکز میں محل نامی عمارت میں منعقد کی گئی تھی۔ جس میں ہندوستان سے دہلی یونیورسٹی کے اردو استاد جناب ڈاکٹر خالد علوی، کراچی کے ادیب مبشر علی زیدی، اور برطانیہ کی شاعرہ محترمہ فرزانہ فرحت کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔
تقریب کا آغاز ستار کی جھنکار اور طبلہ کی تھاپ سے ہوا اور
محترمہ نایاب خواجہ اوراور محترمہ آمنہ خواجہ نے اردو اور جرمن زبانوں میں خوبصورتی سے نظامت کے فرائض انجام دئے۔
جلسے میں مہمانوں کا خٰیرمقدم کرتے ہوئے اردو انجمن کے صدر عارف نقوی نے انڈین کائونسل آ ف کلچرل ریلیشنز کے صدر جناب کرن سنگھ ایم پی کا پیغام تہنیت پڑھکر سنایا۔ اس کے بعد کرشن چندر، خواجہ احمد عباس اور احسان دانش کی تحریروں میں انسانیت، دوستی، امن اور سماجی انصاف کے پیغام کے موضوع پر مقالے پیش کئے گئے۔اور اردو انجمن کے نائب صدر انور ظہیر کی تیار کی ہوئی فلمی جھلکیا پیش کی گئیں اور ساز سنگیت اور مشاعرہ کا پروگرام پیش کیا گیا۔
دہلی یونیورسٹی کے ذاکر حسین کالج کے اردو استاد ڈاکٹر خالد علوی نے، جو مہمان اعزازی کی حیثیت سے شریک تھے، خواجہ احمد عباس کی زندگی کے مختلف پہلوئوں اور ادبی، صحافتی ، فلمی و سماجی خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور بتایا کہ وہ ایک بڑے فنکار ہی نہیں بلکہ بڑے انسان بھی تھے اور دوسروں کے دکھ درد میں شریک رہتے تھے۔ عباس نے ساحرلدھیانوی، امیتابھ بچن، سریکھا ، جلال آغا، شہناز آغا اور مس انڈیا پرسیس کھمباٹا وغیرہ کو فلمی دنیا سے متعارف کرایا۔ ڈاکٹرخالد علوی کی تقریر کا خلاصہ
اردو انجمن کے سکریٹری اُووے فائلباخ نے جرمن زبان میں پیش کیا۔
اس سے قبل مبشر علی زیدی اور عارف نقوی نے کرشن چندر کے بارے میں تفصیل سے تقریریں کیں۔ مبشر علی زیدی نے جو مہمان خصوسی تھے کرشن چندر کے کئی مایہ ناز افسانوں کا ذکر کیا اور دلچسپ حوالے دئے۔ جبکہ عارف نقوی نے خاص طور سے کرشن چندر کے ڈراموں کے بارے میں بتایا اور کہا کہ ان کے ڈرامے سرائے کے باہر اور کتے کی موت میں وہ لکھنئو ریڈیو اسٹیشن پر حصہ لے چکے ہیں اور 1957 سے 1961 تک لکھنئو اور دہلی میں اسٹیج پر پیش کر چکے ہیں۔ عارف نقوی نے ان دونوں ڈراموں کا جرمن زبان میں ترجمہ بھی کیا جو برلن ریڈیو سے براڈکاسٹ کئے گئے اور کافی مقبول ہوئے۔ کرشن چندر کی کئی کہانیاں بھی جرمن رسائل میں شائع ہو چکی ہیں۔عارف نقوی نے جو کرشن چندر سے بہت قریب سے واقف تھے بتایا کہ کرشن چندر نہایت نفیس اور پرخلوص انسان بھی تھے اور زندگی و قدرتی حسن سے پیار کرتے تھے۔
عشرت ظہیر سیما نے شاعر احسان دانش کی ترقی پسند شاعری پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور ان کی زندگی اور شاعرانہ عظمت کے بارے میں بتایا۔
جلسے میں جرمن فنکار سیباستیان درائر اور آصف خان نے ستار اور طبلے سے لوگوں کو لبھایا، جبکہ گلوکار دھیرج رائے نےاردو، انگریزی، جرمن اور بنگالی میں نظم پیش کرتے ہوئے خراج عقیدت پیش کیا۔
تقریب کے دوران ڈاکٹر خالد علوی کے ہاتھوں عارف نقوی کی تازہ کتاب ّنصف صدی جرمنی میں ٗ کی رسم اجرا ادا کی گئی۔اس موقع پر بولتے ہوئے اردو انجمن کے نائب صدر انور ظہیر نے بتایا کہ کتاب ّنصف صدی جرمنی میںّ عارف نقوی کے جرمنی میں پچاس سال کے قیام کے تجربات اور مشاہدات کا نچوڑ ہے۔ ڈاکٹر خالد علوی نے کہا کہ یہ کتاب جرمنی کے بارے میں بہت سی اہم اور دلچسپ معلومات سے بھری ہے اور خاص طور سے اردو قارئین کے لئے بہت اہم ہے
اس کے بعد عارف نقوی نے عشرت معین سیما کا تعارف کراتے ہوئے بتا کہ انھیں یوروپین یونیں کے ایک ادرے نے جرمنی میں اردو ادب کی خدمت کے لئے اعزاز سے نوازا ہے ، جو قابلِ مبارکباد ہے۔اردو انجمن کی طرف سے بھی سیما کو ایک اعزازی سرٹیفیکیٹ دیا گیا۔
تقریب کا اختتام ایک مشاعرہ سے کیا گیا جس کی صدارت اردو انجمن کے صدر عارف نقوی نے کی۔ مشاعرہ کا آغاز عشرت معین سیما نے نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے اپنی غزل سے کیا۔ اس کے بعد مختلف مقامات سے آئے ہوئے شعرا نے کلام پیش کئے جن میں خاص طور سے برطانیہ سے آئی ہوئی مہمان شاعرہ فرزانہ فرحت، ہندوستان کے ڈاکٹر خالد علوی، پاکستان کے رشی خان، ہمبر کے شاعر شاہ جی، حنیف تمنـا، رخسار انجم، عشرت معین سیما، انور ظہیر، محمد ارشاد ، ہندی کی سوشیلا شرما، پنجابی شاعرہ ہربجن کور اور جرمن شاعرہ دیلے گرونڈ نےاور ۤخر میں عارف نقوی نے اپنا کلام پیش کیا۔
اردو انجمن برلن کے صدر کی سالگرہ کا جشن
اتوار 30 مارچ 2014 کو اردو انجمن برلن کے صدر عارف نقوی کی اسی سالہ سالگرہ برلن میں پالاسٹ(محل) نامی عمارت میں منائی گئی۔ اس موقع پر
گلوکار اکمل لطیف نے غزلوں، آصف خان نے طبلے کی تھاپ اور دھیرج رائے نے عارف نقوی کا لکھا گیت گا کر تہنیت پیش کی۔
انور ظہیر رہبر نے عارف نقوی کی زندگی پر فلمی جھلکیاں پیش کیں۔اردو انجمن کے نائب صدر انور ظہیر رہبر، عارف کی بیٹی نرگس یونِتسا اوراردو انجمن کے جنرل سکریٹری اُووے فائلباخ نے عارف نقوی کے بارے میں مقالے پڑھے۔
سارہ ظہیر اور مایا ظہیر کا تیار کیا ہوا سلگرہ کا کیک کاٹا گیا اور وقفے کے بعد زوردار مشاعرہ ہوا۔
جسمں اردو غزلوں و نظموں کے ساتھ جرمن، ہندی اور فارسی میں بھی کلام پیش کئے گئے۔ محترمہ عشرت معین سیما، ارشاد خاں ، رخسار انجم ، انور ظہیر رہبر، ایمینا حیدر اور محترمہ طاہرہ رباب
کی غزلوں اور نظموں کو خاص طور سے پسند کیا گیا اور آخر میں عارف نقوی کو کلام سنانے کی دعوت دی گئی۔ اس موقع پر انھوں نے سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انھیں انسانیت پر آج بھی پورا بھروسا ہے۔ اردو انجمن ہر اس انسان کا استقبال کرتی ہے جسے اردو زبان و ادب اور انسانیت سے پیار ہے۔
محترمہ نایاب خواجہ اور محترمہ عشرت معین سیما کی اردو اور جرمن زبانوں میں بہترین نظامت نے محفل کو چارچاند لگائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سے قبل 29 مارچ کو مہاراجہ ریستوراں میں بہت سے ادیبوں، فنکاروں اور پروفیسروں نے عارف کے قریبی رشتے داروں کے ساتھ مل کر ایک ڈنر کے ساتھ یہ سالگرہ منائی جس میں
ہندوستانی سفارت خانے کے ڈپٹی چیف آف مشن مسٹر اجیت گپتے اور منسٹر امیتابھ رنجن بھی اپنی اہلیہ کے ساتھ شریک تھے۔
اس سے قبل 20 مارچ کو
عارف نقوی کی سالگرہ منانے کے لئے کیرم کے کھلاڑی ان کے گھر پر ڈنر میں شریک ہوئے۔
کیونکہ عارف نقوی ادبی ، تعلیمی اور صحافتی سرگرمیوں کے ساتھ عالمی کعرم فیڈریشن کے صدر بھی ہیں۔
جرمنی کی راجدھانی برلن میں سردار جعفری کی صد سالہ سالگرہ کا جشن
رپورٹ
برلن 12 جون 2013
اردو انجمن برلن کے زیر اہتمام مشہور ترقی پسند شاعر علی سردار جعفری کی صد سالہ سالگرہ منامنے کےلۓ ایک زوردار تقریب 2 جون 2013 کو برلن کے مرکز میں ایک کشادہ ہال میں کی گئ۔ جلسے میں سیمینار، موسیقی،فلم اور مشاعرہ کے پروگراموں سے سردار جعفری کی شاعری میں انسانیت دوستی، ترقی پسندی۔امن اور محبت کے پیغام کو سراہتے ہوۓ انھیں خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
پروگرام کا آغاز ستار اور طبلہ کی جھنکار اور تھاپ سے کیا گیا۔ اس کے بعد اردو انجمن کے صدر
عارف نقوی نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوۓ خاص طور سے دلی یونیورسٹی کے اردو استاد
ڈاکٹر خالد علوی کا سواگت کیا جنھیں انڈین کاؤنسل آف کلچرل ریلیشنس نے اس اہم تقریب میں شرکت کے لۓ جرمنی بھیجا تھا۔ عارف نقوی نے اردو انجمن کی طرف سے آئ سی سی آر کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ اردو انجمن کے پروگرام مذہب و ملت، قومیت اور رںگ و نسل سے بالا تر ہوتے ہیں۔
اس کے بعد سردار جعفری کی زندگی اور شاعری پر انور ظہیر کی بنائی ہوئی ایک فلم کی جھلکیاں دکھا ئی گئیں۔
ڈاکٹر خالد علوی نے اپنے طویل کلیدی مقالے سے قبل جعفری کی زندگی سے وابستہ چند آہم واقعات سناۓ۔انھوں نے اپنے مقالے میں جعفری کی شاعرانہ خوبیوئ کا ذکر کرتے ہوۓ بتایا کہ
جعفری ایک ایسے ترقی پسند شاعرتھے جنھوں نے کلام کے شعری محاسن کو مجروح نہیں ہونے دیا۔ انھوں نے نظموں کے ذریعے غالب، میر، کبیر اور اقبال کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کیا۔
سیمینار کے دوران اردو انجمن کے صدر عارف نقوی نے جعفری کی شخصیت اور فکر و فن پر
تفصیل سے روشنی ڈالی۔
سیمینار کے بعد عارف نقوی کے تازہ مجموعہ کلام کھلتی کلیاں کی خالد علوی کے ہاتھوں رسم اجراء کی گئی۔
محترمہ قدسیہ خواجہ نے اس پر ایک طویل مضمون پڑھا جس کا جرمن زبان میں ترجمہ سارہ ظہیر نے پڑھا۔
اس کے بعد رسالہ پرواز کے عشرت معین سیما نمبر کا تعارف کرایا گیا۔ اور اووے بائلباخ، دھیرج راۓ، عشرت معین سیما اور نایاب خواجہ کو اردو کی خدمت کے لئے سرٹیفیکیٹ دئے گئے۔
گلوکار دھرج رائے نے گیتوں سے جعفری کو خراج عقیدت پیش کیا۔
پروگرام کے آخری دور میں اسحاق ساجد کی صدارت میں جو ساڑھے آٹھ سو کلو میٹر کار چلا کر شرکت کے لئے برلن آئے تھے ایک زوردار مشاعرہ کیا گیا جس میئ ڈاکٹر خالد علوی، عارف نقوی،
اسحاق ساجد، حنیف تمنا، انور ظہیر رہبر، عشرت معین سیما، فاکر رضوی، شاہد علی شاہ جی،سوشیلا حق شرما، میاں مزمل، محمد ارشاد اور امینا حیدر اور دیگر شعراء نے اپنے کلام سنائے۔
عارف نقوی
صدر
اردو انجمن برلن