Naushad Ali - Mughal-e Azam of Film Music

by 

Arif Naqvi

(With thanks to aalmiakhbar.com)                                                                                 

 

                  نوشاد علی         

  ۔۔سنگیت کا مغلِ اعظم

از۔ عارف نقوی                    
 

عارف نقوی۔برلن۔جرمنی

 

 

تان سین کا نام اگر آج بھی سنگیت کے آسمان پر چمک رہا ہے توبر صغیر کی فلمی دنیا کے آسمان پر آج بھی ایک ایساستارہ روشن ہے جس کی چمک سے ہمارے دل منور ہیں اورمیٹھی کرنیں دلوں میں محبت اور ولولے پیدا کرتی ہیں۔ یہ ستارہ ہے نوشادؔ علی۔جس کی دھنوںپر گائے ہوئے گیت مدتوں لوگوں کی زبانوں پر رہے اور آج بھی دلوں میں رس گھولتے ہیں۔


نوشاد نے 66 فلموں میںمیوزک دیا تھا۔ ان میں سے 34فلمیں نہایت ہی ہِٹ ہوئیں۔ یوں سمجھئے کہ 23 فلموںنے سِلور جبلی منائی (یعنی ایک سنیما گھر میں 25 ہفتے چلیں)۔ 8 فلموں نے گولڈن جبلی منائی ( 50 ہفتے چلیں) ۔
ان میں شامل ہیں: میلہ، انداز، دیدار، آن، مَدر اِنڈیا، گنگا جمنا، رام اور شیام اور پاکیزہ۔ 3 فلموں رتن، بیجو باورا اور مغلِ اعظم نے جن کے لئے نوشاد نے سنگیت دیا اور گانوں کی دھنیں بنائیںڈائمنڈ جوبلی کی۔

لکھنوی تہذیب کاچراغ

نوشاد کا تعلق گومتی دریا کے کنارے بسے ہوئے شہر لکھنؤ سے تھا جو اپنی اودھ کی گنگا جمنی مشترکہ تہذیب و تمدن اور روایتوں کے لئے مشہور تھا اور کلاسیکی موسیقی ، کتھک رقص اور اردو زبان و ادب کا مرکز تھا،جسکی جھلک ان کی ساری زندگی اور فن میں ملتی ہے۔ یہ وہی لکھنؤ ہے جہاں اودھ کے تاجدارنواب واجد علی شاہ نے ، جنھیں 1857ء کی جنگ آزادی سے قبل انگریزوں نے معزول کر دیا تھا سنگیت اور رقص کی سرپرستی کی تھی اور خود ڈرامہ لکھا تھا ، جو بعض لوگوں کے
خیال میں ہندوستان کا پہلا اوپیرا تھا۔

اسی شہر لکھنؤ میں عدالت کے ایک منشی جناب واحد علی کے گھر میں25 دسمبر 1919ء کو ایک ستارہ روشن ہوا جس کا نام نوشاد علی رکھا گیا۔ آٹھ برس کی عمر سے ہی اس بچہّ کو سنگیت سے والہانہ محبت ہو گئی اور یہ محبت اتنی بڑھی کہ وہ اپنی اسکولی پڑھائی کونظرانداز کر کے گانے بجانے میںوقت صرف کرنے ، سنگیت کی نشستوں میں شرکت کرنے اور سنیما گھر کے چکر لگانے لگا۔ جسکی اس کے گھر والوں نے سخت مخالفت کی ۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اپنا وقت ضائع کر رہا ہے۔ نوشاد نے استاد غربت علی، استاد یوسف علی اور استاد ببن صاحب جیسے مو سیقی کے استادوںسے کلاسیکی سنگیت سیکھا اور باجوں کی ایک دُکان میں ہارمونیم کی مرمت کا کام کیا اور ایک سنیما گھر میں بغیر آواز والی فلموں کے لئے ہارمونیم بجایا۔ غالباً یہ بات سب لوگ جانتے ہیں کہ ان دنوں ہندوستان میں بغیر آواز والی فلمیں ہی دکھائی جاتی تھیں اور سنیما گھر کے مالکان لوگوں کی دلچسپی کے لئے فلم شروع ہونے سے قبل اپنے آرکسٹراسے پروگرام پیش کرتے تھے۔

پھر ایک دن 1937ء میں نوشاد لکھنؤ کو خدا حافظ کہہ کر بمبئی چلے گئے۔ جیسا کہ انھوں نے خود بتایا ہے ریل کا کرایا ان کے ایک دوست نے دیا تھا۔ جب وہ بمبئی پہنچے تو وہ کسی کو نہیں جانتے تھے۔ جیسا کہ وہ کہتے ہیں: ’’ میں ایک ایک کا مہنہ تکتا تھا۔۔۔‘‘ وہ فلم اسٹوڈیوز کے پیدل چکر لگاتے رہے۔ کہ شاید کہیں کام مل جائے۔اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے فلمی سنگیت کے آسمان پر جگمگانے لگے اور اپنے ساتھ بہت سے روپوش ستاروں کو بھی روشن کر دیا۔

مجھے آج بھی یاد ہے جس زمانے میں میںاسکول میں پڑھا کرتا تھاتو ہر شخص کو نوشاد کا متوالا پاتا تھا۔ لکھنؤ کے ہر محلے کوچے میں نوشاد کے سنگیت اور دھنوں کی دھوم تھی۔ فِلم رتن میں زہرہ بائی کا گایا ہوا گیت ’’ آنکھیاں ملا کے جیا بھرما کےچلے نہیں جانا۔۔۔‘‘، فلم انمول گھڑی میں نورجہاں کا گانا ’’آجا مری برباد محبت کے سہارے، ہے کون جو بگڑی ہوئی تقدیر سنوارے۔۔۔‘‘، شاہجہاں میں گایا ہوا کے۔ ایل۔ سہگل کا گیت ’’ غم دئے مستقل، کتنا نازک ہے دل۔۔۔‘‘ اور ’’ جب دل ہی ٹوٹ گیا ، ہم جی کے کیا کریں گے۔۔۔‘‘اور بہت سے دوسرے گیت جن کی دھنیں نوشادنے بنائی تھیں اور سنگیت رچا تھا اکّے تانگے والوں تک کی زبانوں پر تھے۔پھر جب بیجو باورا جیسی فلمیں سامنے آئیں اور ہٹ ہوئیں تو ’تو گنگا کی موج میںجمنا کا دھارا۔۔۔‘‘ ، ’’ ہری اوم من تڑپت ہری درشن کو آج۔۔۔‘‘ اور ’’او دنیا کے رکھوالے سن درد بھرے میرے نالے۔۔۔‘‘جیسے گیتوں نے ہر طرف دھوم مچادی تھی اور ایسا لگتا تھا جیسے نوشاد کا سنگیت اور محمد رفیع کی آواز ہر انسان کے دل میں پیوست ہے۔اہل لکھنؤ کو فخر تھا کہ نوشادنے اپنے شہرکا نام سارے ملک میں چمکا دیا ہے۔


سنگیت کا مغلِ اعظم

عام طورسے نوشاد کو ہندوستانی فلمی موسیقی کا مغل اعظم سمجھا جاتا ہے۔ میں تو کہوں گا کہ وہ ایک ایسے انقلابی فنکار تھے جنھوں نے اپنے سنگیت سے ہندوستان کی فلمی زندگی میں ہلچل مچادی تھی اور فلمی سنگیت میں انقلاب پیدا کردیا تھا۔ انھیںاپنے استادوں سے کلاسیکی سنگیت کی بہترین تعلیم ہی نہیں ملی تھی اور لکھنؤ کی شعری و سنگیت کی فضا میںنشو نما ہی نہیں ہوئی تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے بے مثال شعور و ادراک اور احساس و مشاہدے کی نعمتیں بھی عطا کی تھیں۔

انھیں مناظر قدرت سے بیحد دلچسپی تھی اور گہرا مشاہدہ تھا۔ چنانچہ ایک ایسا فنکار آسمان پر اڑتی ہوئی بطخوں کی قائیں قائیں،پیڑوں پر چڑیوں کی چہچہاہٹ، کوئل کی کوک، پپیہے کی پی کہاں اور پھولوں کو چومتے ہوئے بھونروں کے ساز اور چمن میں اڑتی ہوئی رنگ برنگی تتلیوں کی خوبصورتی میںپنہاں سنگیت کو کیسے نہ پہچانتا۔وہ خود ایک حساس شاعر بھی تھے ۔لکھنؤ کے شاعرانہ ماحول میں پلے بڑھے تھے۔ اشعار کی باریکیوں سے واقف تھے۔ زندگی کے مختلف مرحلوں سے گزر چکے تھے۔
لوگوں کے دکھ درد کوسمجھتے تھے۔ چنانچہ ان تمام باتوں نے ان کے سنگیت کو جاندار بنا دیا تھا۔
وہ خود لکھتے ہیں:

دنیا والو مری آواز تو سَو بار سنی
دل بھی ٹوٹا ہے مرا اس کی بھی جھنکار سنی
کسی پتّے کے دھڑکنے کی صدا بھی تو نہیں
کس کی آواز بتا تونے دلِزار سنی
رات نوشاد  یہ کس بستی میں جا نکلے تھے
جس سے جو بات سنی ہم نے دل آزار سنی
اور پھر کہتے ہین:
روپ نغموں کا دے کے ہم نوشاد
اپنے دل کی پکار لے کے چلے


نوشاد کو اگرایم بھونانی، سی ایم لوہار، مَنی بھئی ویاس، مہندر ٹھاکر اور پی جے راج، ایم صادق،ایس یو سنّی ،نظیر اجمیری، ایم احسان،نیتین بوس، وجے بھٹ، راجہ نوائے، اے ۔آر ۔کاردار، محبوب خان اور کے آصف جیسے فلم پروڈیوسروں اور ڈائریکٹروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تو شکیل بدایونی، مجروح سلطانپوری،آنند بخشی،بی آر شرما، دینا ناتھ مدھوک، حسرت جے پوری، جان نثار اختر، کیف بھوپالی، خمار بارہ بنکوی، کیفی اعظمی، راجندر کرشن تنویر نقوی، ضیا سرحدی، حسن کمال اور کئی دیگر شعراء نے ان کے لئے بہترین گیت لکھے ۔ خصوصاً شکیل بدایونی کے ساتھ ان کا بہت لمبا اور گہرا ساتھ رہا۔ بیجو باورا اور مغل اعظم کی ڈائمنڈ جبلیوں کا سبب بہت حد تک نوشاد کا سنگیت، شکیل بدایونی کے گیت، رفیع اور لتا کی آوازوں کے جادو تھے۔

ان کے دور کی شاید ہی کوئی اچھی مغنیہ ایسی ہوگی جس نے ان کی دھن پر گیت نہ گائے ہوں۔ مثلاً امیر بائی کرناٹکی، سریا، نورجہاں، لتامنگیشکر، آشا بھونسلے، گیتا دت، شمشاد بیگم ۔ مغنیوں میںبڑے غلام علی، ہیمنت کمار، کے ایل سہگل، محمد رفیع، کشور کمار، طلعت محمود، استاد امیر خاں، پنکج ادھاس وغیرہ کے نام ہمارے سامنے ہیں، جنھوں نے اپنی سریلی آوازوں سے ان کے سنگیت کو اور چار چاند لگا دئے تھے۔

وہ نئے فنکاروں کی تلاش میں رہتے تھے اور ان کے ہنر کو پہچان کر انھیں ابھرنے کا موقع دیتے تھے ۔ ُسریا، اوما دیوی، مہندر کپور، لتا اور رفیع اس کی بہترین مثالیں ہیں۔

گلوکارہ ثریا کا انتخاب انھوں نے اس وقت کیا تھا جب اس کی عمر صرف 13 برس کی تھی ۔ اس وقت انھوں نے اسے فلم شاردا میںپلے بیک گانے کا موقع دیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ فلم بیجو باورہ کے لئے نوشاد نے طلعت محمود کا انتخاب کیا تھا ، لیکن ایک دن انھوں نے طلعت محمود کو ریکارڈنگ روم میں سگریٹ پیتے ہوئے دیکھ لیا ۔ یہ بات انھیں اس قدر ناگوار گذری کہ انھوں نے طلعت کی جگہ محمد رفیع کو بیجو باورا میں گانے کے لئے موقع دیا، جو اتنے کامیاب ہوئے کہ اس کے بعد نوشاد کی زیادہ تر فلموں میں رفیع ہی نے گانے گائے۔


اسی طرح انھوں نے لتا اور کئی دوسرے فنکاروں کو ابھارا۔فلم چاندنی رات کی شوٹنگ کے دوران گائک دُرّانی لتا کولے کر نوشاد کے پاس گئے۔ فلم کے سب گانوں کی ریکارڈنگ مکمل ہو چکی تھی۔ نوشاد نے جب لتا کی آواز کو سنا تو وہ انھیں اس قدر پسند آئی کہ انھوں نے فوراً ایک دوگانہ تیا ر کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ لتا اس فلم میں گا سکے۔
’’ ہائے چھورے کی جات بڑی بے وفا‘‘ جسے لتا نے درّانی کے ساتھ مل کر گایا۔

لتا منگیشکر خود کہتی ہیں:

’’ میں 1948ء میں ان کے پاس کام کرنے کے لئے گئی تھی اور تب سے ان سے واقف ہوں۔ ان کی وفات سے موسیقاروںکی ایک نسل ختم ہو گئی ہے۔ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کا دور جو ہماری فلموں میں تھا ختم ہو گیا ہے۔‘‘
میرے خیال سے نوشاد کی دھنوں پر سب سے زیادہ گیت لتا منگیشکر نے گائے ہیں جو ہٹ ہوئے ہیں۔مثلاً شکیل بدایوں کا لکھا ہوا یہ شعر : وہ آئی صبح کے پردے میں موت کی آواز
کسی نے چھیڑ دیا دل کی زندگی کا راز
جسے لتا منگیشکر نے خوبصورتی سے فلم مغل اعظم میں گایا تھا۔کہ راگ کلیان میں بندھے ہوئے اس شعر نے ایک انوکھا ماحول پیدا کر دیا تھا۔

بتایا جاتا ہے کہ فلم بیجو باورا کے لئے ہدایت کار وجے بھٹ نرگس اور دلیپ کمار کو اصلی رول دینا چاہتے تھے، مگر نوشاد نے مشورہ دیاکہ نئے فنکاروں کو موقع دیا جائے چنانچہ مینا کماری اور بھارت بھوشن کو یہ رول دئے گئے جو بہت کامیاب ہوئے۔ بیجو باورا کے سب گانوں کی دھنیںہندوستانی کلاسیکی راگوں پر مبنی تھیں۔

نوشاد کی ایک بڑی خصوصیت پس منظر سنگیت اور ڈانس سنگیت ہے۔ جس کی بہترین مثال مغل اعظم اور مدر انڈیا میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ جس میں انھوں نے بہت سے تجربے کئے ہیں۔ ان کا خیال تھاکہ بغیر بیک گراؤنڈ میوزک کے فلم پھیکی ہوتی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ نوشاد کے سنگیت کی بنیاد ہندوستانی کلاسیکی میوزک اور لوک سنگیت ہے جس میں ان کا شاید ہی کوئی ثانی ہوگا۔ مثلاً انھوں نے بیجو باورا میں لتا اور رفیع کی آواز میں بھیرویں میں گیت ‘‘تو گنگا کی موج میں جمنا کا دھارا ‘‘پیش کیا۔ راگ مالکوس میں ’’میں من تڑپت ہری درشن کو آج‘‘ رفیع کی آواز میںپیش کیا ۔ اکبر کے دربار کا وہ سین جس میں تان سین اور بیجو باورا اپنے اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیںاس میں ڈی وی پالوسکر اور امیر خاں جیسے ماہروں کے فن کا خوبصورتی سے استعمال کیا۔

فلم مغل اعظم میں بڑے غلام علی نے نوشاد کے سنگیت پر راگ راگیشری میں ’’ شبھ دن آیو راج دُلارا۔۔۔‘‘ اور ’’ پریم جوگن بن کے سندری پیا او چلو۔۔۔‘‘ گیت گائے۔ نیز تان سین کو تان پورا پر راگ پوریا کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔ استاد رئیس خاں کے ستار سے فلم گنگا جمنا میں لتا منگیشکر کے گائے ہوئے گیت ’’ ڈھو نڈو ھونڈو رے سجنا ڈھونڈھو۔۔۔‘‘میں جان ڈال دی۔
انھوں نے ضرورت کے مطابق مغربی سنگیت کا بھی خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ان کے بیک گراؤنڈ میوزک میں ہندوستانی اور مغربی دونوں عناصر موجود ہیں۔ وہ ان چند موسیقاروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے بیک گراؤنڈ میوزک کا خوبصورتی سے استعمال کیا تھا اور اس سے ماحول قائم کیا تھا۔ اس کی بہترین مثال فلم مغل اعظم میں ان کا سنگیت ہے۔

انھوں نے آرکسٹرا کا بھیء نہایت ہی کامیابی سے استعمال کیا ہے۔ فلم آن کے لئے کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ایک سین کے لئے 100 پیس کے آرکسٹرا سے کام لیا۔ وہ پہلے سنگیت کار ہیں جنھوں نے sound mixing کا استعمال کیا۔ اور آواز و موسیقی کو الگ الگ ریکارڈ کر کے ملایا۔ فلم اڑن کھٹولا میں تو انھوں نے بغیر آرکسٹرا کے ایک پورا گیت ریکارڈ کیا۔ہندوستانی باجوں کے ساتھ انھوں نے مغربی باجے مثلاً منڈولین، کلارینیٹ، اکارڈین وغیرہ کا استعمال کیا۔

فلم مغل اعظم میں لتا کے گیت ’’ تمھاری دنیا سے جا رہی ہوں۔۔۔‘‘ کے بعد نو شاد نے راگ کلیان سے پر اثرماحول بنایا ۔

بہر حال عرصہ دراز تک بالی ووڈ پر چھایا رہنے والا اور فلمی سنگیت میں انقلاب لانے والا یہ مغل اعظم، جس نے معیاری سنگیت کے لئے اپنی زندگی وقف کی تھی ، بالی ووڈ کے بدلتے ہوئے ماحول سے مایوس ہو کر خود ہی کنارہ کش ہو گیا۔ اس کی فلموں میں اب باکس آفس کے لئے کشش نہیں تھی۔ لوگوں کا مزاج بدل رہا تھا۔ مغربی سنگیت اور رقص رمبا سمبا چھا چھا چھا اب نوجوانوں میں مقبول ہو رہے تھے۔ ان حالات میں نوشاد نے، جو سنگیت کے فن میں سمجھوتے بازی کے قائل نہیں تھے، تقریباً کنارہ کشی اختیار کر لی۔ ان کی آخری کامیاب فلم کمال امروہوی کی ’’پاکیزہ ‘‘ تھی جس کے لئے غلام محمد اور نوشاد نے سنگیت رچا۔ اور جس نے گولڈن جبلی منائی تھی۔

انعامات

نوشاد کو لاتعدا د قومی اور بین الاقوامی انعامات سے سرفرازکیاگیا تھا جن میں سے مندرجہ ذیل ایوارڈوں کی خاص اہمیت ہے:

وہ پہلے شخص تھے جنھیں 1955ء میں فلم فیر ایوارڈدیا گیا۔
اپنے سنگیت کے لئے انھیں 1955ء میں ’دادا صاحب پالکی ایوارڈ‘ ملا۔
1977ء میں مہاراشٹر سرکار نے انعام دیا۔
1984 میں مدھ پردیش سرکار نے لتا منگیشکر ایوارڈ دیا۔
1985ء میں یو پی سنگیت ناٹک اکاڈیمی نے ’رتن‘ ایوارڈ دیا۔
مرکزی ناٹک اکاڈیمی نے 1992ء میں ایوارڈ دیا۔
ہندی اردو ساہت اکاڈیمی نے انھیں سرفراز کیا اور
1992ء میں صدر جمہوریہ نے ’پدم بھوشن‘ ایوارڈ سے نوازا۔

مجھے آج بھی یاد ہے۔ 1993ء میں میں چھٹیاں منانے کے لئے اپنی جائے پیدائش لکھنؤ گیا ہوا تھا۔ ایک دن مجھے ایک دعوت نامہ ملا۔ 29 اکتوبر کو نوشاد کے اعزاز میں بیگم حضرت محل پارک میںلکھنؤ کے شہریوں کی طرف سے ایک بہت بڑا جلسہ ہونے جا رہا ہے اور انھیں ’’ اودھ رتن‘‘ ایوارڈ سے نوازا جائے گا۔فلم اداکار دلیپ کمار اور سنیل دت بھی اس میں شرکت کے لئے بمبئی سے آنے والے تھے۔ بہرحال جلسہ واقعی بہت شاندار ہوا۔ ڈائس پر نوشاد، دلیپ۔ سنیل، اتر پردیش کے گورنر موتی لال وورا اور شہر کے مئیر اکھلیش چندر بیٹھے تھے اور ہزاروں لوگ جوش خروش سے محبت کی بارش کر رہے تھے۔ مختصر سی ملاقات کے بعد یہ طے ہو ا کہ میں دوسرے دن یعنی 30 اکتوبر کو گورنر ہاؤس میں جہاں وہ تینوں مقیم تھے ان سے ملوں تاکہ اطمینان سے گفتگو ہو سکے۔

 چنانچہ دوسرے دن جب میں دلیپ، سنیل اور نوشاد سے گورنر ہاؤس میں ملا تو لگتا ہی نہیں تھا کہ جیسے نوشاد کو کوئی بڑا اعزاز دیا گیا ہے۔ وہ اس دن بھی ہمیشہ کی طرح منکسر المزاج اور حلیم نظر آرہے تھے جیسے ہمیشہ رہتے تھے۔ انھیں سب سے زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ اپنے شہر میں پھر سے آنے اور بہت سے مقامی لوگوںسے ملنے کا موقع ملا تھا۔ اسی دن شہر میں ایک نوشاد مرکز کا افتتاح دلیپ کمار کے ہاتھوں ہونے جارہاتھا،جسے موسیقی، غزلیات، بھجن وغیرہ کے فروغ کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اتر پردیش کے گورنر نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ ’’نوشاد انعام‘‘ کے نام سے ایک ٹرسٹ قائم کیا جائے گا ، تاکہ فنکاروں کو ہر سال نوازا جائے۔ ان تمام منصوبوں کا کیا حشر ہو اہے یہ میں فی الحال نہیں بتا سکتا۔

مثالی زندگی

نوشاد کی زندگی اور جدو جہد کی کہانی ابھرتے ہوئے فنکاروں کے لئے مثال ہے۔ انسان میں اگر ہنر اور شعور ہے۔جدوجہد کا جذبہ اور ثابت قدمی ہے تو وہ کامیابی کی منزلوں تک پہنچ سکتا ہے۔

نوشاد نے اپنی زندگی میں بہت سی صعوبتوں کا سامنا کیا تھا ۔خصوصاًبمبئی پہنچنے کے بعدانھوں نے دربدر کی خاک چھانی تھی ۔
1937 میں جب وہ بمبئی پہنچے تو جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں : ’’ایک ایک کا مہنہ تکتا تھا، کہ کسی فلم کمپنی میں کام مل جائے۔‘‘ آخر کار انھیں ایک نئی فلم کمپنی میں جو ’ ’سنہری مکڑی‘ ‘ تیار کر رہی تھی ، آرکسٹرا میں کام مل گیا، جس کے میوزک ڈائریکٹر استاد جھنڈے والان تھے۔ ایک بار جھنڈے والان جی کو ’’کیوں اے دلِ دیوانہ ہے عقل سے بیگانہ‘ ‘ گیت کی دھن بنانے میں کچھ دشواری ہو رہی تھی۔ نوشاد نے ان سے اجازت لے کر اس گانے کی دھن بنا دی جو استاد جھنڈے والان کوبہت پسند آئی۔ بدقسمتی سے وہ فلم ریلیز نہ ہو سکی۔
اس کے بعد انھو ں نے سنگیت کار مشتاق حسین کے آرکسٹرا میں کام کیا اور پھر رنجیت اسٹوڈیو میں سنگیت کا رمنوہر کپور کے ساتھ کام کیا۔ گیت کا رڈی این مدھوک ، جنھیں وہ اپنے والد کی طرح مانتے تھے، ان سے اتنا متاثر ہوئے کہ انھوں نے اسٹوڈیو کے مالک چندو لال شاہ سے سفارش کی اور نوشاد کو فلم ’’کنچن‘ ‘ کے لئے سنگیت رچنے کا کام سونپا گیا۔
مشہور اداکارہ لیلا چٹنس اس فلم میںگیت’ ’ بتا دو مجھے کون گلی گئے شیام‘ ‘ گارہی تھی۔ نوشاد نے رنجیت اسٹوڈیو کے اندرونی معاملات سے بے زار ہوکر اس فلم کو چھوڑ دیا۔ اس کے بعد مدھوک نے انھیں پروڈیوسر ’موہن بھونانی سے متعارف کرایا ، جو فلم پریم نگر تیار کر رہے تھے۔ یہ ان کے لئے ایک اہم بریک تھرو تھا۔ انھیں اس فلم کا سنگیت ڈائریکٹ کرنے کا کام سونپا گیا۔ دینا ناتھ مدھوک نے ’پرکاش اسٹوڈیو‘ کے مالک وجے بھٹ اور شنکر بھٹ سے بھی ان کی سفارش کی اور نوشاد کوفلم’ ’مالا‘ ‘ ، ’’درشن‘ ‘ اور’ ’اسٹیشن ماسٹر‘‘ کے لئے سنگیت تیار کرنے کا کام مل گیا۔
’’اسٹیشن ماسٹر‘‘ بہت کامیاب ہوئی اور اس کے تمام گیت بہت مقبول ہو ئے، خاص طور سے گیت:’’کبھی نہ ہمت ہار بندے جیون ہے کھلواڑ‘‘، جسے امیر بائی کرناٹکی نے گایا تھا بہت مقبول ہوا۔

اس کے بعد انھوں نے کاردار کی فلمو ں کے کئے کام کیا اور ان کی 15 فلموں میں سنگیت دیا، جن میں سے 13 نے سلور جبلی منائی۔ نوشاد اور کاردار نےمل کر ایک ’میوزیکل پکچرس‘ نامی تنظیم قائم کی جس کے تحت فلم ’جادو‘ اور فلم ’داستان‘ بنائی گئیں۔ دونوں فلموںکی سلور جبلی ہوئی۔بعد میں نوشاد نے محبوب خان کے ساتھ کام کیا اور ان کی جو فلمیں خاص طور سے کامیاب ہوئیں ان میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:
’’انمول گھڑی‘‘، ’’ اعلان‘ ‘ ،’ ’انوکھی ادا‘‘، ’’انداز‘‘، ’’آن‘‘ ، ’’اَمر‘‘، ’’مدر انڈیا‘‘ ، ’’سن آف انڈیا‘‘۔’’ آن‘‘، ’’ مدر انڈیا‘‘ اور ’’انداز‘‘ نےگولڈن جبلی کی۔ انھیں دو اور فلموں ’ہمارا وطن‘ اور ’حبہ خاتون‘ کا سنگیت تیار کرنے کا کام بھی سونپا گیا تھا مگر بدقسمتی سے 1964ء میں محبوب خاں کا انتقال ہو گیا۔
 
محبوب خاں اپنے وقت کے سب سے کامیاب ہدایت کار اور پروڈیوسر تھے۔جن کا نام بر صغیر میں احترام سے لیا جاتا تھا۔
مجھے یاد ہے ۔ ایک بار میں نے اداکارہ نرگس دت سے، جو محبوب خاںکی فلم ’’مدر انڈیا ‘‘ کی ہیروئن تھیں اور بعد میںاداکاری سے قطع تعلق ہوگئی تھیں ایک نجی گفتگو کے دوران پوچھا تھا کہ فلموں میں کام کرنا کیوں بند کر دیا ہے؟ تو ان کا جواب تھا : ’’ عارف، مجھے محبوب صاحب کے بعد اس پایہ کا کوئی ہدایت کار نظر نہیں آیا۔‘‘

محبوب اور کاردار کے علاوہ نوشاد نے دوسرے پرود ڈیوسروں کی فلموں میں بھی سنگیت دیا۔ مثلاً جیمنی پروڈکشن کی ’’رتن‘ ‘ جس نے ڈائمنڈ جبلی کی،واڈیا فلمس کی ’’میلہ‘‘، صادق پروڈکشن کی’’ شباب’‘، ریپبلک فلم کارپوریشن کی’ ’کوہِ نور‘‘ ۔ سیٹیزن فلم کی ’’گنگا جمنا‘‘، راہل تھیٹر کی ’’میرے محبوب‘‘ ،ٹی وی سیریل ’’ دی سوورڈ آف انڈیا (ٹیپو سلطان)‘‘اور وجے انٹرنیشنل (مدراس) کی ’رام اور شیام‘۔ ساتھ ہی ڈائریکٹر سننی کے ساتھ انھوں نے فلم’شباب‘ اور ’اڑن کھٹولا‘ کا سنگیت تیار کیا۔

اپنی 48 سال کی فلمی سرگرمیوں کے دوران نوشاد نے 66 فلموں کے لئے میوزک تیار کیا، جن میں فلم’آن‘ کا تامل روپ اور ’مغل اعظم‘ کا تامل اور انگریزی روپ شامل ہیں۔ نیز ایک بھوجپوری فلم ’پان کھائے سیّاں ہمار ‘ اور ملیالم فلم ’دھونی‘ بھی ہیں جن کے گیت نوشاد نے تیار کئے تھے۔

ان کی آخری نہایت کامیاب فلم ہم ’پاکیزہ کہہ سکتے ہیں جس میں غلام محمد اور نوشاد نے سنگیت دیا ہے اور 1971 میں ریلیز ہو ئی تھی۔جس نے گولڈن جوبلی کی تھی۔

ایک خاص بات یہ کہ نوشاد نے کبھی کبھی لتا اور رفیع کے لئے نہایت ہی مشکل دھنیں تیار کیں اور ان دونوںفنکاروں نے انھیں مہارت کے ساتھ اپنی آوازوں سے جاوداں بنا دیا۔
لتا خود کہتی ہیں:
’’ بیجو باورا میں انھوں نے جو سنگیت تیار کیا اس نے خود مجھے حیرت میں ڈال دیا تھا۔ مختلف نوعیتوں میں مختلف راگ استعمال کئے گئے اور بہت حد تک راگوں کی purity پاکیزگی قائم رکھی گئی۔‘‘
نوشاد کا انتقال 5 مئی 2006 کو ممبئی میں عرب ساگر کے قریب ان کے گھر ’ ’ آشیانہ‘‘ میں ہوا۔
ان کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا گیا ہے ۔ مدر انڈیا، بیجو باورا اور مغل اعظم جیسی لافانی فلمیںآج بھی زندہ جاوید ہیں اور ان کی موسیقی اور دھنیں لوگوںکے دلوں میں زندگی کا رس گھول رہی ہیں اور ہمیں غالب کا یہ شعر یاد آجاتا ہے:

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

 
 

Datenschutzerklärung
powered by Beepworld