Naushad Ali - Mughal-e Azam of Film Music
by
Arif Naqvi
(With thanks to aalmiakhbar.com)
نوشاد علی
۔۔سنگیت کا مغلِ اعظم
از۔ عارف نقوی

نوشاد نے 66 فلموں میںمیوزک دیا تھا۔ ان میں سے 34فلمیں نہایت ہی ہِٹ ہوئیں۔ یوں سمجھئے کہ 23 فلموںنے سِلور جبلی منائی (یعنی ایک سنیما گھر میں 25 ہفتے چلیں)۔ 8 فلموں نے گولڈن جبلی منائی ( 50 ہفتے چلیں) ۔
ان میں شامل ہیں: میلہ، انداز، دیدار، آن، مَدر اِنڈیا، گنگا جمنا، رام اور شیام اور پاکیزہ۔ 3 فلموں رتن، بیجو باورا اور مغلِ اعظم نے جن کے لئے نوشاد نے سنگیت دیا اور گانوں کی دھنیں بنائیںڈائمنڈ جوبلی کی۔
لکھنوی تہذیب کاچراغ

خیال میں ہندوستان کا پہلا اوپیرا تھا۔
اسی شہر لکھنؤ میں عدالت کے ایک منشی جناب واحد علی کے گھر میں25 دسمبر 1919ء کو ایک ستارہ روشن ہوا جس کا نام نوشاد علی رکھا گیا۔ آٹھ برس کی عمر سے ہی اس بچہّ کو سنگیت سے والہانہ محبت ہو گئی اور یہ محبت اتنی بڑھی کہ وہ اپنی اسکولی پڑھائی کونظرانداز کر کے گانے بجانے میںوقت صرف کرنے ، سنگیت کی نشستوں میں شرکت کرنے اور سنیما گھر کے چکر لگانے لگا۔ جسکی اس کے گھر والوں نے سخت مخالفت کی ۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اپنا وقت ضائع کر رہا ہے۔ نوشاد نے استاد غربت علی، استاد یوسف علی اور استاد ببن صاحب جیسے مو سیقی کے استادوںسے کلاسیکی سنگیت سیکھا اور باجوں کی ایک دُکان میں ہارمونیم کی مرمت کا کام کیا اور ایک سنیما گھر میں بغیر آواز والی فلموں کے لئے ہارمونیم بجایا۔ غالباً یہ بات سب لوگ جانتے ہیں کہ ان دنوں ہندوستان میں بغیر آواز والی فلمیں ہی دکھائی جاتی تھیں اور سنیما گھر کے مالکان لوگوں کی دلچسپی کے لئے فلم شروع ہونے سے قبل اپنے آرکسٹراسے پروگرام پیش کرتے تھے۔

مجھے آج بھی یاد ہے جس زمانے میں میںاسکول میں پڑھا کرتا تھاتو ہر شخص کو نوشاد کا متوالا پاتا تھا۔ لکھنؤ کے ہر محلے کوچے میں نوشاد کے سنگیت اور دھنوں کی دھوم تھی۔ فِلم رتن میں زہرہ بائی کا گایا ہوا گیت ’’ آنکھیاں ملا کے جیا بھرما کےچلے نہیں جانا۔۔۔‘‘، فلم انمول گھڑی میں نورجہاں کا گانا ’’آجا مری برباد محبت کے سہارے، ہے کون جو بگڑی ہوئی تقدیر سنوارے۔۔۔‘‘، شاہجہاں میں گایا ہوا کے۔ ایل۔ سہگل
سنگیت کا مغلِ اعظم

انھیں مناظر قدرت سے بیحد دلچسپی تھی اور گہرا مشاہدہ تھا۔ چنانچہ ایک ایسا فنکار آسمان پر اڑتی ہوئی بطخوں کی قائیں قائیں،پیڑوں پر چڑیوں کی چہچہاہٹ، کوئل کی کوک، پپیہے کی پی کہاں اور پھولوں کو چومتے ہوئے بھونروں کے ساز اور چمن میں اڑتی ہوئی رنگ برنگی تتلیوں کی خوبصورتی میںپنہاں سنگیت کو کیسے نہ پہچانتا۔وہ خود ایک حساس شاعر بھی تھے ۔لکھنؤ کے شاعرانہ ماحول میں پلے بڑھے تھے۔ اشعار کی باریکیوں سے واقف تھے۔ زندگی کے مختلف مرحلوں سے گزر چکے تھے۔
لوگوں کے دکھ درد کوسمجھتے تھے۔ چنانچہ ان تمام باتوں نے ان کے سنگیت کو جاندار بنا دیا تھا۔
وہ خود لکھتے ہیں:
دنیا والو مری آواز تو سَو بار سنی
دل بھی ٹوٹا ہے مرا اس کی بھی جھنکار سنی
کسی پتّے کے دھڑکنے کی صدا بھی تو نہیں
کس کی آواز بتا تونے دلِزار سنی
رات نوشاد یہ کس بستی میں جا نکلے تھے
جس سے جو بات سنی ہم نے دل آزار سنی
اور پھر کہتے ہین:
روپ نغموں کا دے کے ہم نوشاد
اپنے دل کی پکار لے کے چلے
نوشاد کو اگرایم بھونانی، سی ایم لوہار، مَنی بھئی ویاس، مہندر ٹھاکر اور پی جے راج، ایم صادق،ایس یو سنّی ،نظیر اجمیری، ایم احسان،نیتین بوس، وجے بھٹ، راجہ نوائے، اے ۔آر ۔کاردار، محبوب خان اور کے آصف جیسے فلم پروڈیوسروں اور ڈائریکٹروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا تو شکیل بدایونی، مجروح سلطانپوری،آنند بخشی،بی آر شرما، دینا ناتھ مدھوک، حسرت جے پوری، جان نثار اختر، کیف بھوپالی، خمار بارہ بنکوی، کیفی اعظمی، راجندر کرشن تنویر نقوی، ضیا سرحدی، حسن کمال اور کئی دیگر شعراء نے ان کے لئے بہترین گیت لکھے ۔ خصوصاً شکیل بدایونی کے ساتھ ان کا بہت لمبا اور گہرا ساتھ رہا۔ بیجو باورا اور مغل اعظم کی ڈائمنڈ جبلیوں کا سبب بہت حد تک نوشاد کا سنگیت، شکیل بدایونی کے گیت، رفیع اور لتا کی آوازوں کے جادو تھے۔
ان کے دور کی شاید ہی کوئی اچھی مغنیہ ایسی ہوگی جس نے ان کی دھن پر گیت نہ گائے ہوں۔ مثلاً امیر بائی کرناٹکی، سریا، نورجہاں، لتامنگیشکر، آشا بھونسلے، گیتا دت، شمشاد بیگم ۔ مغنیوں میںبڑے غلام علی، ہیمنت کمار، کے ایل سہگل، محمد رفیع، کشور کمار، طلعت محمود، استاد امیر خاں، پنکج ادھاس وغیرہ کے نام ہمارے سامنے ہیں، جنھوں نے اپنی سریلی آوازوں سے ان کے سنگیت کو اور چار چاند لگا دئے تھے۔
وہ نئے فنکاروں کی تلاش میں رہتے تھے اور ان کے ہنر کو پہچان کر انھیں ابھرنے کا موقع دیتے تھے ۔ ُسریا، اوما دیوی، مہندر کپور، لتا اور رفیع اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
گلوکارہ ثریا کا انتخاب انھوں نے اس وقت کیا تھا جب اس کی عمر صرف 13 برس کی تھی ۔ اس وقت انھوں نے اسے فلم شاردا میںپلے بیک گانے کا موقع دیا تھا۔

اسی طرح انھوں نے لتا اور کئی دوسرے فنکاروں کو ابھارا۔فلم چاندنی رات کی شوٹنگ کے دوران گائک دُرّانی لتا کولے کر نوشاد کے پاس گئے۔ فلم کے سب گانوں کی ریکارڈنگ مکمل ہو چکی تھی۔ نوشاد نے جب لتا کی آواز کو سنا تو وہ انھیں اس قدر پسند آئی کہ انھوں نے فوراً ایک دوگانہ تیا ر کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ لتا اس فلم میں گا سکے۔
’’ ہائے چھورے کی جات بڑی بے وفا‘‘ جسے لتا نے درّانی کے ساتھ مل کر گایا۔
لتا منگیشکر خود کہتی ہیں:
’’ میں 1948ء میں ان کے پاس کام کرنے کے لئے گئی تھی اور تب سے ان سے واقف ہوں۔ ان کی وفات سے

میرے خیال سے نوشاد کی دھنوں پر سب سے زیادہ گیت لتا منگیشکر نے گائے ہیں جو ہٹ ہوئے ہیں۔مثلاً شکیل بدایوں کا لکھا ہوا یہ شعر : وہ آئی صبح کے پردے میں موت کی آواز
کسی نے چھیڑ دیا دل کی زندگی کا راز
جسے لتا منگیشکر نے خوبصورتی سے فلم مغل اعظم میں گایا تھا۔کہ راگ کلیان میں بندھے ہوئے اس شعر نے ایک انوکھا ماحول پیدا کر دیا تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ فلم بیجو باورا کے لئے ہدایت کار وجے بھٹ نرگس اور دلیپ کمار کو اصلی رول دینا چاہتے تھے، مگر نوشاد نے مشورہ دیاکہ نئے فنکاروں کو موقع دیا جائے چنانچہ مینا کماری اور بھارت بھوشن کو یہ رول دئے گئے جو بہت کامیاب ہوئے۔ بیجو باورا کے سب گانوں کی دھنیںہندوستانی کلاسیکی راگوں پر مبنی تھیں۔
نوشاد کی ایک بڑی خصوصیت پس منظر سنگیت اور ڈانس سنگیت ہے۔ جس کی بہترین مثال مغل اعظم اور مدر انڈیا میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ جس میں انھوں نے بہت سے تجربے کئے ہیں۔ ان کا خیال تھاکہ بغیر بیک گراؤنڈ میوزک کے فلم پھیکی ہوتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ نوشاد کے سنگیت کی بنیاد ہندوستانی کلاسیکی میوزک اور لوک سنگیت ہے جس میں ان کا شاید

فلم مغل اعظم میں بڑے غلام علی نے نوشاد کے سنگیت پر راگ راگیشری میں ’’ شبھ دن آیو راج دُلارا۔۔۔‘‘ اور ’’ پریم جوگن بن کے سندری پیا او چلو۔۔۔‘‘ گیت گائے۔ نیز تان سین کو تان پورا پر راگ پوریا کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔ استاد رئیس خاں کے ستار سے فلم گنگا جمنا میں لتا منگیشکر کے گائے ہوئے گیت ’’ ڈھو نڈو ھونڈو رے سجنا ڈھونڈھو۔۔۔‘‘میں جان ڈال دی۔
انھوں نے ضرورت کے مطابق مغربی سنگیت کا بھی خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ان کے بیک گراؤنڈ میوزک میں ہندوستانی اور مغربی دونوں عناصر موجود ہیں۔ وہ ان چند موسیقاروں میں سے ایک ہیں جنھوں نے بیک گراؤنڈ میوزک کا خوبصورتی سے استعمال کیا تھا اور اس سے ماحول قائم کیا تھا۔ اس کی بہترین مثال فلم مغل اعظم میں ان کا سنگیت ہے۔
انھوں نے آرکسٹرا کا بھیء نہایت ہی کامیابی سے استعمال کیا ہے۔ فلم آن کے لئے کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ایک سین کے لئے 100 پیس کے آرکسٹرا سے کام لیا۔ وہ پہلے سنگیت کار ہیں جنھوں نے sound mixing

فلم مغل اعظم میں لتا کے گیت ’’ تمھاری دنیا سے جا رہی ہوں۔۔۔‘‘ کے بعد نو شاد نے راگ کلیان سے پر اثرماحول بنایا ۔
بہر حال عرصہ دراز تک بالی ووڈ پر چھایا رہنے والا اور فلمی سنگیت میں انقلاب لانے والا یہ مغل اعظم، جس نے معیاری سنگیت کے لئے اپنی زندگی وقف کی تھی ، بالی ووڈ کے بدلتے ہوئے ماحول سے مایوس ہو کر خود ہی کنارہ کش ہو گیا۔ اس کی فلموں میں اب باکس آفس کے لئے کشش نہیں تھی۔ لوگوں کا مزاج بدل رہا تھا۔ مغربی سنگیت اور رقص رمبا سمبا چھا چھا چھا اب نوجوانوں میں مقبول ہو رہے تھے۔ ان حالات میں نوشاد نے، جو سنگیت کے فن میں سمجھوتے بازی کے قائل نہیں تھے، تقریباً کنارہ کشی اختیار کر لی۔ ان کی آخری کامیاب فلم کمال امروہوی کی ’’پاکیزہ ‘‘ تھی جس کے لئے غلام محمد اور نوشاد نے سنگیت رچا۔ اور جس نے گولڈن جبلی منائی تھی۔
انعامات

وہ پہلے شخص تھے جنھیں 1955ء میں فلم فیر ایوارڈدیا گیا۔
اپنے سنگیت کے لئے انھیں 1955ء میں ’دادا صاحب پالکی ایوارڈ‘ ملا۔
1977ء میں مہاراشٹر سرکار نے انعام دیا۔
1984 میں مدھ پردیش سرکار نے لتا منگیشکر ایوارڈ دیا۔
1985ء میں یو پی سنگیت ناٹک اکاڈیمی نے ’رتن‘ ایوارڈ دیا۔
مرکزی ناٹک اکاڈیمی نے 1992ء میں ایوارڈ دیا۔
ہندی اردو ساہت اکاڈیمی نے انھیں سرفراز کیا اور
1992ء میں صدر جمہوریہ نے ’پدم بھوشن‘ ایوارڈ سے نوازا۔
مجھے آج بھی یاد ہے۔ 1993ء میں میں چھٹیاں منانے کے لئے اپنی جائے پیدائش لکھنؤ گیا ہوا تھا۔ ایک دن مجھے ایک دعوت نامہ ملا۔ 29 اکتوبر کو نوشاد کے اعزاز میں بیگم حضرت محل پارک میںلکھنؤ کے شہریوں کی طرف سے ایک بہت بڑا جلسہ ہونے جا رہا ہے اور انھیں ’’ اودھ رتن‘‘ ایوارڈ سے نوازا جائے گا۔فلم اداکار دلیپ کمار اور سنیل دت بھی اس میں شرکت کے لئے بمبئی سے آنے والے تھے۔ بہرحال جلسہ واقعی بہت شاندار ہوا۔ ڈائس پر نوشاد، دلیپ۔ سنیل، اتر پردیش کے گورنر موتی لال وورا اور شہر کے مئیر اکھلیش چندر بیٹھے تھے اور ہزاروں لوگ جوش خروش سے محبت کی بارش کر رہے تھے۔ مختصر سی ملاقات کے بعد یہ طے ہو ا کہ میں دوسرے دن یعنی 30 اکتوبر کو گورنر ہاؤس میں جہاں وہ تینوں مقیم تھے ان سے ملوں تاکہ اطمینان سے گفتگو ہو سکے۔

مثالی زندگی
نوشاد کی زندگی اور جدو جہد کی کہانی ابھرتے ہوئے فنکاروں کے لئے مثال ہے۔ انسان میں اگر ہنر اور شعور ہے۔جدوجہد کا جذبہ اور ثابت قدمی ہے تو وہ کامیابی کی منزلوں تک پہنچ سکتا ہے۔
نوشاد نے اپنی زندگی میں بہت سی صعوبتوں کا سامنا کیا تھا ۔خصوصاًبمبئی پہنچنے کے بعدانھوں نے دربدر کی خاک چھانی تھی ۔
1937 میں جب وہ بمبئی پہنچے تو جیسا کہ وہ خود کہتے ہیں : ’’ایک ایک کا مہنہ تکتا تھا، کہ کسی فلم کمپنی میں کام مل جائے۔‘‘ آخر کار انھیں ایک نئی فلم کمپنی میں جو ’ ’سنہری مکڑی‘ ‘ تیار کر رہی تھی ، آرکسٹرا میں کام مل گیا، جس کے میوزک ڈائریکٹر استاد جھنڈے والان تھے۔ ایک بار جھنڈے والان جی کو ’’کیوں اے دلِ دیوانہ ہے عقل سے بیگانہ‘ ‘ گیت کی دھن بنانے میں کچھ دشواری ہو رہی تھی۔ نوشاد نے ان سے اجازت لے کر اس گانے کی دھن بنا دی جو استاد جھنڈے والان کوبہت پسند آئی۔ بدقسمتی سے وہ فلم ریلیز نہ ہو سکی۔
اس کے بعد انھو ں نے سنگیت کار مشتاق حسین کے آرکسٹرا میں کام کیا اور پھر رنجیت اسٹوڈیو میں سنگیت کا رمنوہر کپور کے ساتھ کام کیا۔ گیت کا رڈی این مدھوک ، جنھیں وہ اپنے والد کی طرح مانتے تھے، ان سے اتنا متاثر ہوئے کہ انھوں نے اسٹوڈیو کے مالک چندو لال شاہ سے سفارش کی اور نوشاد کو فلم ’’کنچن‘ ‘ کے لئے سنگیت رچنے کا کام سونپا گیا۔

’’اسٹیشن ماسٹر‘‘ بہت کامیاب ہوئی اور اس کے تمام گیت بہت مقبول ہو ئے، خاص طور سے گیت:’’کبھی نہ ہمت ہار بندے جیون ہے کھلواڑ‘‘، جسے امیر بائی کرناٹکی نے گایا تھا بہت مقبول ہوا۔
اس کے بعد انھوں نے کاردار کی فلمو ں کے کئے کام کیا اور ان کی 15 فلموں میں سنگیت دیا، جن میں سے 13 نے سلور جبلی منائی۔ نوشاد اور کاردار نےمل کر ایک ’میوزیکل پکچرس‘ نامی تنظیم قائم کی جس کے تحت فلم ’جادو‘ اور فلم ’داستان‘ بنائی گئیں۔ دونوں فلموںکی سلور جبلی ہوئی۔بعد میں نوشاد نے محبوب خان کے ساتھ کام کیا اور ان کی جو فلمیں خاص طور سے کامیاب ہوئیں ان میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:

مجھے یاد ہے ۔ ایک بار میں نے اداکارہ نرگس دت سے، جو محبوب خاںکی فلم ’’مدر انڈیا ‘‘ کی ہیروئن تھیں اور بعد میںاداکاری سے قطع تعلق ہوگئی تھیں ایک نجی گفتگو کے دوران پوچھا تھا کہ فلموں میں کام کرنا کیوں بند کر دیا ہے؟ تو ان کا جواب تھا : ’’ عارف، مجھے محبوب صاحب کے بعد اس پایہ کا کوئی ہدایت کار نظر نہیں آیا۔‘‘
محبوب اور کاردار کے علاوہ نوشاد نے دوسرے پرود ڈیوسروں کی فلموں میں بھی سنگیت دیا۔ مثلاً جیمنی پروڈکشن کی ’’رتن‘ ‘ جس نے ڈائمنڈ جبلی کی،واڈیا فلمس کی ’’میلہ‘‘، صادق پروڈکشن کی’’ شباب’‘، ریپبلک فلم کارپوریشن کی’ ’کوہِ نور‘‘ ۔ سیٹیزن فلم کی ’’گنگا جمنا‘‘، راہل تھیٹر کی ’’میرے محبوب‘‘ ،ٹی وی سیریل ’’ دی سوورڈ آف انڈیا (ٹیپو سلطان)‘‘اور وجے انٹرنیشنل (مدراس) کی ’رام اور شیام‘۔ ساتھ ہی ڈائریکٹر سننی کے ساتھ انھوں نے فلم’شباب‘ اور ’اڑن کھٹولا‘ کا سنگیت تیار کیا۔
اپنی 48 سال کی فلمی سرگرمیوں کے دوران نوشاد نے 66 فلموں کے لئے میوزک تیار کیا، جن میں فلم’آن‘ کا تامل روپ اور ’مغل اعظم‘ کا تامل اور انگریزی روپ شامل ہیں۔ نیز ایک بھوجپوری فلم ’پان کھائے سیّاں ہمار ‘ اور ملیالم فلم ’دھونی‘ بھی ہیں جن کے گیت نوشاد نے تیار کئے تھے۔
ان کی آخری نہایت کامیاب فلم ہم ’پاکیزہ کہہ سکتے ہیں جس میں غلام محمد اور نوشاد نے سنگیت دیا ہے اور 1971 میں ریلیز ہو ئی تھی۔جس نے گولڈن جوبلی کی تھی۔
ایک خاص بات یہ کہ نوشاد نے کبھی کبھی لتا اور رفیع کے لئے نہایت ہی مشکل دھنیں تیار کیں اور ان دونوںفنکاروں نے انھیں مہارت کے ساتھ اپنی آوازوں سے جاوداں بنا دیا۔
لتا خود کہتی ہیں:
’’ بیجو باورا میں انھوں نے جو سنگیت تیار کیا اس نے خود مجھے حیرت میں ڈال دیا تھا۔ مختلف نوعیتوں میں مختلف راگ استعمال کئے گئے اور بہت حد تک راگوں کی purity پاکیزگی قائم رکھی گئی۔‘‘

ان کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا گیا ہے ۔ مدر انڈیا، بیجو باورا اور مغل اعظم جیسی لافانی فلمیںآج بھی زندہ جاوید ہیں اور ان کی موسیقی اور دھنیں لوگوںکے دلوں میں زندگی کا رس گھول رہی ہیں اور ہمیں غالب کا یہ شعر یاد آجاتا ہے:
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں