Literature - Sports - Social activites

Social Activities which included among other things:

* Urdu Anjuman Berlin (Urdu förderverein Berlin e.V.) Founding President

* Children Charitable Society (Kinder-Wohltätigkeitsverein Berlin e.V.) Founding President

* International Carrom Federation (ICF) President (2005 to 2014)

* European Carrom Confederation (ECC) Founding President (1996- June 2013)

* Carrom Sport Association Berlin (CSV) e.V. Founding President

 

*Writing: Short Stories, Poems, Plays

*European Correspondent: Daily Avadhnama, Lucknow, India

Lucknow Edion  
 
  Breaker   Breaker       Breaker   Breaker  
 


Reminiscences:

(see below)

Arif speaking at a function of Urdu Anjuman Berlin. Sitting: writer Sultana Mehr and Anwar Zaheer

Arif with the children of Shoa Fatima Girls Inter College Lucknow. Also to be seen:Prof. Sharib Rudaulvi, Prof. Shamim Nikhat, Prof. Roop Rekha Verma (former Vice Chancellor Lucknow University), P.K. Tiwari (journalist) and others.

Exhibition of the paintings of the children of Shoa Fatima Girls College Lucknow.

(A report published in Aalmi Akhbar, London)

شعاع فاطمہ گرلس کالج لکھنئو کے بچوں کی دھوم جرمنی کے دارالحکومت برلن میں
 

‎‫شعاع فاطمہ گرلس کالج ہندوستان کےثقافتی شہر لکھنئو میں غریب بچوں ، خاص طور سے غریب لڑکیوں کے لئے ایک تعلیم گاہ ہے۔ اس کی بنیاد اردو کے مشہور نقاد پروفیسر شارب ردولوی اور پروفیسر شمیم نکہت نے اپنی پیاری بیٹی شعاع فاطمہ کے‬
‎‫نام پر رکھی تھی جس کا بیس برس کی عمر میں انتقال ہو گیا تھا۔ اب اس کالج میں ایک ہزارغریب گھرانوں کے بچے پڑھتے ہیں اور اپنے والدین کے نام روشن کر رہے ہیں۔‬
‎‫یو پی بورڈ کے ہائی اسکول اور انٹر میڈیٹ کے امتحانات میں اس سال بھی اس کالج کا نتیجہ سو فیصدی رہا ہے اور کئی بچوں نےڈسٹنکشن حاصل کئے ہیں جس کی شہر کے سبھی اخبارات نے تعریف کی ہے۔ ‬
‎‫شعاع فاطمہ گرلس کالج لکھنئو کے بچوں کی بنائی ہوئی تصویروں کی نمائش 8 جولائی سے 30 اگست تک جرمنی کی راجدھانی برلن میں خواتین کے ایک مرکز میں لوگوں کی دلچسپی کا مرک‍زتھی ۔ جسے بہت پسںد کیا گیا ۔۔‬
‎‫بروز بدھ 28 اگست کو خواتین کے مرکز ویمینس ٹریف لچثن برگ میں چلڈرن چیریٹیبل سوسائٹی برلن کےاشتراک سےاس نمائش کی اختتامی تقریب کی گئی جس میں بہت سے لوگوں نے شرکث کی اور شعاع فاطمہ کالج کے بچوں کے ہنر کو سراہا۔‬ ‫۔‬
‎‫خواتین کے مرکز کی سربراہ مسز سمر لاٹے نے مہمانوں کا استقبال کرتے  ہوئےبتایا کہ  وہاں آنے والے سب لوگوں نے تصویروں کو بہت پسند کیا ہے۔‬
‎‫چلڈرن چیریٹیبل سوسائٹی کے صدر عارف نقوی نے شعاع کالج کی سرگرمیوں پر‬
‎‫روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ  ‬
‎‫اس کالج میں غریب گھرانوں کے بچے پڑھتے ہیں لیکن امتحانا ت میں بہترین نتائج حاصل کرتےہیں۔   ‬
‫ ‬
‎‫جس کا سبب بچوں کی لگن اور محنت اور کالج کے مینیجمنٹ، ٹیچرس اور والدین کے بیچ اچھا تعاون ہے۔۔‬
‎‫برلن لچٹن برگ کی میونسپلٹی کی نوجوانوں اور خواتین کے امور کی انچارج ڈاکٹر اوبر مایر نے اپنی تقریر میں کہا کہ‬
‎‫انھیں حیرت ہے کہ بچوں نے کتنی خوبصورتی کے ساتھ سماجی زندگی کے مختلف پہلوئوں کوپیش کیا ہے۔ ان تصویروں میں بچوں کی خور اعتمادی اور پڑھائی میں خوشی جھلکتی ہے۔‬
‎‫اس موقع پر شعاع کالج کی تعمیر، کلاس رومس میں پڑھائی ، سالانہ جلسے میں کلچرل پروگرام اور کالج کی آرٹس اینڈ‬
‎‫کرافٹ نمائش کے بارے میں ایک فلم دکھائی گئی۔ اس کے بعد کئی لوگوں نے تصویروں کی تعریف کرتے ہوئےسوالات کئے اور مبارک بادیں دیں۔‬
‎‫گلوکار میتالی مکھرجی نے اپنی خوبصورت آواز میں رابندر ناتھ ٹیگور اور نذرالاسلام کے گیت بنگالی زبان میں اورعارف نقوی کا لکھا ایک گیت اردو میں پیش کیا۔ ‌‌‌‬‎‎
 
 
       

 


عارف نقوی کی جرمن زبان میں کتاب خار اور پھول کی شاندار رسمِ اجراء    
اردو کا پہلا مکمل شعری مجموعہ جرمن زبان میں
رپورٹ: انور ظہیر نائب صدر اردو انجمن برلن


اردو کی کہانیاں اور نظمیں ماضی میں جرمن زبان میں شائع ہوتی رہی ہیں، لیکن پہلی بار ایک ہی شاعر کی اردو
نظموں اور غزلوں کا مکمل مجموعہ جرمنی کی تاریخ میں منظرِ عام پر آیا ہے، جو ۸۲ نظموں اور غزلوں کا       عارف نقو ی کی جائے پیدائش لکھنؤ کے کسی بھی زبان کے شاعر کا جرمن زبان میں پہلا مجموعہ ہے۔
Nachbarschaftstreffen اتوار۱۹؍ اپریل کی شام کو برلن کے علاقے لچٹن برگ کے ایک ثقافتی مرکز    
میں برلن کے ادبی و ثقافتی حلقوں کے لوگ بڑی تعداد میں اس مجموعہ کی رسمِ اجراء کی تقریب میں جمع ہوئے۔اور اردو اورجرمن زبانوں میں عارف نقوی کی نظمیں اور غزلیں اور لوگوں کے تبصرے سنے۔

نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے ثقافتی مرکز کی انچارج محترمہ سَمر لاٹے نے مہمانوں کا خیر مقدم کرتے
ہوئے جلسے کا آغاز کیا اور برلن کے ایک ہردلعزیز مغنی دھیرج رائے سے اردوگیت پیش کرنے کی درخواست کی ، جنہوں
نے عارف نقوی کا لکھا اور کمپوزکیا ہواایک مدھر گیت ہارمونیم کے ساتھ اپنی بہترین آواز میں سنایا۔ اس کے بعد پروفیسر
جارج فیفر نے ، جنہوں نے عارف نقوی کے مجموعہء کلام پر پیش لفظ لکھا ہے تقریر کرتے ہوئے   تفصیل سے اپنی رائے دی۔ پروفیسر فیفر برلن کی فری یونیورسٹی میں، جو مغربی برلن میں تھی، ایتھنولوجی شعبے کے ڈائریکٹر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی نوجوانی کے کئی سال لاہور میں گزارے تھے اور اردو زبان اور شاعری نیزتہذیب سے اچھی طرح واقف ہیں۔ پروفیسر فیفرنے تفصیل سے لکھنؤ، اس کی تہذیب اور حالات کا ذکر کیا اور کہا کہ عارف نقوی نے ان سب سے کافی اثر لیا ہے۔ عارف نقوی ایک درویش کی طرح ہیں جس کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا، جو امن او ر آشتی کا متلاشی ہوتا ہے اور جس کا دل سب جگہ رہتا ہے اور دل میں سب کا درد ہوتا ہے۔ پروفیسر فیفر نے عارف نقوی کا شمار بہترین شاعروں اور انسانوں میں کیا۔
اس کے بعد ایک جرمن ریڈیو جرنلسٹ محترمہ انتئے اسٹیبیتس نے عارف نقوی کی نظم احساس کا جرمن ترجمہ پڑھکرسنایا جو کافی پسند کیا گیا۔

اردو انجمن برلن کے نائب صدر انور ظہیر رہبر نے اپنی تقریر میں کہا کہ عارف نقوی کا جرمن زبان میں شعری مجموعہ
اپنی نوعیت کی ایک نئی اور اہم موثر کن ، تاریخی اہمیت کی تصنیف ہے۔
پہلی بار کسی اردو شاعر کی اتنی نظمیں اور غزلیں جرمن زبان میں ایک ہی کتاب میں منظرِ عام پر آئی ہیں اور وہ بھی برلن میں۔
عارف نقوی کا نام اردو ادب کے حوالے سے یوروپ، مشرق وسطیٰ، پاکستان اور بھارت میں جانا جاتا ہے لیکن یہاں ہم برلن
والوں کی یہ خوش قسمتی ہے کہ عارف نقوی اردو ادب کی ایک ممتاز اور بزرگ شخصیت ہم لوگوں کے درمیان موجود ہیں اور وہ
نہ صرف اردو ادب کے لئے بلکہ ہم سب کے لئے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اردو شاعری میں جو دسترس
اور مقام ان کو حاصل ہے وہ کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔ عارف نقوی خوبصورت لب و لہجہ میں جب اپنے اشعار پیش کرتے
ہیں تو ان کی بات ہمارے دلوں کی گہرائیوں تک اثر کرتی چلی جاتی ہے۔ان کی نظمیں ہوں یا غزلیں وہ سماجی انصاف،
انسانیت دوستی، امن و امان اور دنیا میں پیار و محبت کے طلبگار نظر آتے ہیں۔ چاندنی رات میں غربت کی جھلک دیکھنے کی طاقت آپ ہی میں ہے۔
خار اور گل میں عارف نقوی کی ۸۲ (بیاسی) اردو نظموں اور غزلوں کے جرمن ترجمے ہیں جو بڑی حد تک جرمن شعری انداز میں ہیں۔ ان کو پڑھتے وقت آپ ان کے قلم سے نکلے ہوئے جوار بھاٹا میں ایسے گم ہو جائیں گے کہ آپ کو پتہ ہی نہیں لگے گا کہ وقت  ان کی نگارشات کے علاوہ آپ سے کسی اور چیز کا بھی طالب ہیں۔

اس کے بعد عارف نقوی کی بیٹی نرگس نے اپنے والد کی زندگی کے دلچسپ پہلوؤں اور شہر لکھنؤ اور عارف نقوی کی
ننہال پنجابی ٹولہ اور ددیحال چکبست روڈ کی منظر کشی کی جنہوں نے عارف نقوی کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا ہے۔اور ان کی ادبی نشو نما میں اہم رول ادا کیا ہے۔خصوصاً چکبست روڈ پر ان کے گھر کا چمن جو سب کے لئے کھلا ہوا تھا۔
اس کے بعد مس سارہ ظہیر نے عارف نقوی کی دو نظمیں’ چمن چمن میں‘ اور ’ ایک لڑکی ‘کے منظوم جرمن ترجمے پڑھکرسنائے اور داد حاصل کی۔

چائے کے وقفے کے بعد دوسرا دور بنگالی مغنیہ میتالی موزومدار کی آواز سے شروع ہوا۔ میتالی نے سب سے پہلے
عارف نقوی کا لکھا ہوا گیت ’کیرم کا ہے کھیل نرالا‘ ہارمونیم کے ساتھ سنایا ، جس کی دھن بھی عارف نقوی نے بنائی ہے۔ میتالی کی شیریںآواز کے ساتھ ہال میں موجود بہت سے لوگوں نے مل کر یہ گیت گایا۔ اس کے بعد میتالی نے رابندر ناتھ  پگلا ہوار بادل ۔۔۔۔۔ ٹیگور کا   ایک گیت پیش کیا  
ریڈیو جرنلسٹ اور جرمن شاعرہ باربرا لیمکو نے عارف نقوی کی دو نظمیں ’تکرار اور وطن جرمن زبان میں پیش کیں جو خاص طور سے پسند کی گئیں
 
اردو انجمن کے جنرل سکریٹری اووے فائلباخ نے عارف نقوی کی شاعری پر تفصیل سے
تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ اردو نظموں، خصوصاً غزلوں کا جرمن زبان میں ترجمہ کرنا آسان نہیں ہے۔ اردو شاعری اپنے خوبصورت استعاروں اور تشبیہات کی وجہ سے چاشنی ہی نہیں دیتی بلکہ انسانیت اور امن کے پیغام سے بھی متاثر کرتی ہے۔
عارف نقوی کی شاعری ہمارے دلوں میں اتر جاتی ہے۔ یوں تو اردو ادیبوں کی تخلیقات کا ترجمہ جرمن زبان میں ہوتا رہا ہے۔
جیسے اقبال کا یا کرشن چندر، پریم چنداور خواجہ احمد عباس کا لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ کسی اردو شاعر کا جرمن زبان میں پورا مجموعہ
سامنے آیا ہے، جس میں عارف نقوی کی ۸۲ نظمیں اور غزلیں ہیں۔
جرمن براڈکاسٹنگ سروس ’’ڈائچے ویلے‘‘ کے ایشیائی شعبہ کے سابق صدر فریڈیمان شیلندر  نے جلسے میں بولتے ہوئے عارف نقوی کی ادبی اور ثقافتی خدمات کی تعریف کی اور بتایا کہ عارف نقوی
سے وہ ۱۹6۲ء سے واقف ہیں جب عارف نقوی برلن کی ہمبولٹ یو نیورسٹی میں استاد تھے اور فریڈیمان عارف نقوی کے
شاگرد تھے۔ وہ اس وقت سے ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں سے متاثر ہوئے ہیں۔
سابق جرمن سفیر ڈاکٹر کارل فشر ، جن کی پیدائش ہندوستان میں ہوئی تھی اور وہ
برسوں ہندوستان اور پاکستان میں رہ چکے ہیں اور جرمنی کے اتحاد کے بعد سفیر کے عہدہ پر فائز تھے، عارف نقوی سے اپنی
پرانی واقفیت کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی شخصیت اور شاعری کی تعریف کی اور اس کتاب کی اہمیت پر زور دیا۔
بنگالی پروفیسر ڈاکٹر سنیل سین گپتا نے اپنی تقریر میں بتایا کہ جرمنی آنے سے قبل ۱۹۵۸ء سے وہ عارف نقوی
کی نظمیں اور غزلیں سنتے رہے ہیں اور ان کی تخلیقات اور خیا لات سے متاثر ہوئے ہیں۔
اس کے بعد عارف نقوی نے شکریہ ادا کرتے ہوئے خاص طور سے ان لوگوں کا ذکر کیا جنہوں نے ان کی نظموں
کے جرمن ترجمے میں مدد کی ہے۔
برلن کے ہردلعزیز گلو کار اور بنگالی شاعر دھیرج رائے نے عارف نقوی کی کئی مختصر نظموں کے جرمن اور بنگالی
زبانوں میں ترجمے پڑھکر سنائے اور کہا کہ وہ اردو شاعری سے بہت متاثر ہیں اور عارف نقوی کی نظموں میں جو پیغام اور
دھڑکنیں ہیں ان سے متاثر ہو کر وہ عارف نقوی کی نظموں کا بنگالی زبان میں ترجمہ کر رہے ہیں اور اب تک ان کی آٹھ
نظموں کا ترجمہ کر چکے ہیں۔
جلسہ کا اختتام عارف نقوی کی غزل سے ہوا جو انہوں نے پہلے جرمن ترجمے اور پھر اردو میں ترنم
سے سنائی، جس کے چند اشعار اس طرح ہیں:

اے رب العالمین یہ کیسی بہار ہے
کوندے لپک رہے ہیں فلک شعلہ بار ہے

ایسی ہوا چلی ہے کہ گلشن میں ہر طرف
جس پھول کو بھی دیکھتا ہوں داغدار ہے

رسنے لگے ہیں آبلے پیروں کے اس گھڑی
ہر سمت ریگزار یہاں خار زار ہے

اتنا بہا ہے خون میرا اس دیار میں
گزرا ہوں میں جدھر سے ادھر لالہ زار ہے

دورِ خزاں ہے اور چہکتا ہے عندلیب
پھر سے بہار آئے گی یہ اعتبار ہے

عارف کے لب کھلے بھی نہ تھے سر قلم ہوا
رودادِ دل لہو سے یہاں آشکار ہے

از۔ انور ظہیر رہبرؔ برلن، ۲۰؍ اپریل ۲۰۱۵ء

 

   
 
   
   
   
   
   
   
   
   
   
   
   
   
   
   
   
   
   
   

 




 

Arif as President of International Carrom Federation addressing the participants of 6th Carrom World Championship in Colombo, Sri lanka 2012.

My relation with International Carrom

Reminiscences of four decades:

by

Arif Naqvi (President International Carrom Federation)

 

Dear readers,

My books "Relation with International Carrom" has been published in 2015 in English and Urdu languages. They contains those events in which I was a present and participated, experienced, felt and learnt something. The books are mainly based on my personal reminiscences. If you have also interesting reminiscences or questions please share with me. They can enrich my experiences and will also be placed here.

I am just mentioning here the list of the items, foreword and preface to give you some idea about the book.

You may also order the book on my address.

Arif Naqvi

Dedication:

Dedicated to Krishan Sharma, Riz Karim and other friends who worked for the promotion of Carrom till the last breath of their life.

 

Contents:

1. Preface

2. Literature and Carrom

3. Difficulties & Complications

4. Breakthrough

5. Formation of International Carrom Federation

6. First I.C.F. Cup

7. A dwarf among wrestlers

8. East-West Cooperation

9. ICF decision for continental confederations

10. First World Carrom Championship

11. Unification of two German Carrom federations

12. First UK International Open

13. Second ICF Cup & Internation Umpires Examination

14 Second World Carrom Championship

15. Indo German Test Series I , II

16.U.S. Open

17. Indo-German Test Series III

18. European Carrom Confederation

19. Third ICF Cup and ICF Congress

20. From the bottom of heart

21. 2nd. Euro Cup in Berlin 1998

22. 10th Anniversary of ICF & Champions Championship, London

23. Germany – Maldives Test Series

24. 3rd. World Championship New Delhi

25. A play on Carrom

26. On the dias of Film Festival

27. Across the ocean

28.Carrom in Olympic Village

29. A shock to World Carrom

30. Indo German 4th Test Series

31. ICF Cup in Sri Lanka

32. 3rd. World Cup in U.S.A.

33. Carrom in Indian Parliament

34. Cry for visa

35. Silverjubilee of German Carrom Federation

36. 6th World Championship

37. Euro Cup in Poland & Retirement from ECC

38. ICF Silver Jubilee

39. A Short Story on Carrom

40. International Carrom Tournaments


 

Foreword

 

Joerg Kijanski President German Carrom Federation


 

   When Arif called me in August 2014 and asked me to write a message for his book Relation with International Carrom, I was highly moved. Not for the foreword, which he wanted from me, but for the fact that Arif wanted to look back to his long and energetic Carrom life. The text books on Carrom for beginers and advance players are available in many languages, but a biography of a Carrom player is new. Though I must mention that here it is not a memoir of any normal Carrom player but of an extraordinary Carrom player. Nobody has done throughout the world so much for spreading and promotion of the game of Carrom. For decades Arif devoted his life to this fascinating game as his own game and travelled countless kilometers between Asia and Europe. No one can imagine how many times he has gone round the world. Recently Arif has celebrated his 80th birthday - and as a President of the World federation the International Carrom Federation he is active all over the world.

   His work started in East Germany, the former German Democratic Republic, where he founded the Carrom Sports Federtion, one of the first federations in Europe. At the Second Congress of the International Carrom Federation in 1991 in Male Arif represented the interests of the East Germans as well as the interests of the West German federation (G.C.F.), since no representative of the (western) German Carrom Federation (G.C.F.) could take part in it. In the following years Arif became the President of the whole German Carrom Federation (G.C.F.) and continued his office for more than ten years. So far nobody had been before or until now for such a long period on this post. He was also founding President of the European Carrom Confederation and is President of the International Carrom Federation. One may think that here for some times several posts were carried together and there were perhaps different interests. Not always, inspite of the connection of sports and international friendship, were the opinions of Europeans and Asians the same. Arif could mediate in such situations souvereign and found colectively the solutions and finally implemented them.

   All three existing federations- the G.C.F., E.C.C. and I.C.F. are grateful to Arif more than one can imagine today. Perhaps one would be able to judge in coming years how valuable his contributions are. The fact is that without the unprecedented efforts of Arif the history and development of Carrom, particularly in Germany and Europe, would have been different. That the G.C.F. has for years the largest membership in Europe, is also a contribution of Arif. And when today the new federations are established all over Europe, such as in Poland, Sweden, Spain or for example in Czech Republic, so we can say it surely, that also here Arif had his hands.That he, at the same time, finds time to write poems and plays in his mother tongue Urdu is to some extent astonishing, because he has also a family and a big circle of friends. With the selfless support , particularly from his wife Ingrid and the rest of the family, he would have hardly the possiblity for such kind of intensive engagement and fulfilment of hobby, which is very often forgotten.

   I myself had met and appreciated Arif long before in the G.C.F.. He was not only my predecessor on the post of President, but always one of my most important contact partner, which he is even today. A nice friend, whom I - and certainly all Carrom loving people in the world wish whole heartedly a long future.To all readers of this book, I wish stimulating, informative and interesting reading.

Koeln (Cologne), August 2014

 

Preface

From author's pen
 

 


 

   There are many theories about the origin of the game of Carrom. Some people like to relate it to China, the others with Egypt and Yemen etc. But nobody has seriously researched on it. Nor any university ever bothered to assign this task to any scholar. Even we in the ICF have not found any one who could take up this serious responsibility. I wish that in near future some young scholar will come forward to trace the history of Carrom and enrich our knowledge, which is not only important for us, but for the entire sports community in the world.

   I personally presume that this interesting game was originated in Indian sub-continent from the combination of the ancient board games and the modern European billiard. Billiard was confined to aristocracy as attraction in Gymkhanas, officers clubs, and rich palaces. But the intelligence of common men adopted billiard according to their own conditions and traditions in such a way that the game of Carrom developed. It had all the qualities of billiard, but was simple and suited to the conditions of the poor people in the sub-continent. For more than one hundred years this game remained confined to the poor people's localities and huts, without proper training and tournaments. Their clubs, if there were any, looked shabby and without proper equipments, although there were excellent players among them. But they were not recognised in the society. Among the rich families, the carrom boards were presented to the children for fun, but they were not allowed to spend much time on it. The parents were scared that Carrom will spoil their children and harm their studies. As if it was untouchable for the fine families, just as many other folk sports and arts were neglected in the society, whose fate was opened after the freedom of the continent from the colonial rule.


 

__________________________________________________________

  "The first major toy which we presented to our children was a Carrom Board." Said a prominent film actress of India Mrs. Jaya Bachchan, when I accompanied her for about five hours journey from Berlin to Gera (East Germany), where she was going to attend an International Children Film Festival as a member of jury.

_____________________________________________


 

   During the past six decades like many folk arts and games Carrom has also been able to get considerable recognition in the society not only in the sub-continent but also around the globe. More and more people recognize its social importance. In countries like India, Sri Lanka, Maldives and to some extent in Bangladesh and Malaysia it is recognized in official circles and receives partial state support. Newspapers and electronic media also gives more coverage to Carrom activities. Many recognized Carrom players have been able to get good jobs in big firms in India and Sri Lanka.

   As in India and Sri Lanka after the formations of the national Carrom federations in 1956 and 1958 many new Carrom players and Carrom lovers were inspired to form large number of clubs and associations, the formation of the International Carrom Federation on 15th October 1988 at Madras (Chennai) inspired Carrom players in many parts of the world. In Europe along with Switzerland and both parts of Germany Carrom federations/associations and clubs were formed in Netherlands, U.K., Italy, France, Sweden, Poland, Czech Republic and Spain. They organise their national and regional tournaments and other promotional activities. In summer 1991 the 2nd. Congress of the International Carrom Federation, where I represented the Carrom federations of both parts of Germany, entrusted me the task to organize as convenor a confederation of Carrom in Europe. The first Consultative meeting was held on 22nd. September 1991 in Berlin, a day after the Euro Cup in which the representatives of both parts of Germany, Netherlands and newly formed U.K.Carrom Federation participated.

   The meeting endorsed the decision of the ICF and decided to continue consultations in this direction. On 16th August 1996 the European Carrom Confederation was established at a meeting in Unter Ehrendingen, Switzerland. I was elected unanimously as President of the ECC, while Krishan Sharma (U.K.) took over as Secretary General, Elisa Martinelli (Italy) as Assistant Secretary and Uelli Plus (Switzerland) as Treasurer of the ECC. Since then regular Euro Cup Carrom tournaments are organized every year. Similarly in Asia the Carrom tournaments and other activities are organized by Carrom federations/associations and clubs in India, Sri Lanka, Pakistan, Maldives, Bangladesh, Malaysia, Japan, Korea, Emirates and Nepal etc. Since the formation of the Asian Carrom Confederation regular SAARC countries Championships have been organised in different countries and now Asian Championships are also taking place. In USA there is a very strong Carrom federation which is organizing national and regional tourneaments. Now with the emergence of a strong Carrom federation in Canada this game has got new strength in North America. While Carrom activities have also started in some countries of South America and Africa. Many international Carrom tournaments have been organized in countries like Germany, India, Sri Lanka, U.K., U.S.A., France, Malaysia. A remarkable development I noticed in recent years in Poland, where large number of school boys and girls are taking interest in Carrom. The coming 4th Carrom World Cup 13th to 17th September 2014 in Maldives is a proof of the growing popularity of the game and the strength of I.C.F. . With seventeen countries registered for the World Cup 2014 will be the highest number of countries taking part in any Carrom tournament. A fact which gives us much optimism and faith.

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Nachricht versenden
Name: *
E-Mail: *
Ihre Nachricht: *
Datenschutz
Ja, ich akzeptiere die Datenschutzerklärung.
Nachricht wurde erfolgreich gesendet!


Datenschutzerklärung
powered by Beepworld