نفرت کا سندیسہ  ہے مذہب کا   بہانہ ہے

ذہنوں میں جہالت ہے    وحشت کا زمانہ ہے

چن چن کے  صدہا تنکے اس گھر کو بنایا تھا

اپنوں نے      جلایا  ہے  بس   اتنا فسانہ ہے

صیاد   نے   پر نوچے    قاتل  نے  گلا   کاٹا

کھولی تھی زباں میں نے پوچھا تھا کہ دانا ہے

اک داغ ہے سینے میں دو اشک ہیں آنکھوں میں

مفلس نہ مجھے   سمجھو   یہ  میرا  خزانہ  ہے

عارف نقوی

عارف نقوی کے جرمن زبان میں شعری مجموعے خار اور گُل
کی برلن میں شاندار رسمِ اجراء
اردو کا پہلا مکمل شعری مجموعہ جرمن زبان میں


رپورٹ: انور ظہیر نائب صدر اردو انجمن برلن

برلن جرمنی
اردو کی کہانیاں اور نظمیں ماضی میں جرمن زبان میں شائع  ہوتی رہی ہیں، لیکن پہلی بار ایک ہی شاعر کی اردو نظموں اور غزلوں کا مکمل مجموعہ جرمنی کی تاریخ میں منظر عام پرآ ۤیا ہے ، جو 82 نظموں اور غزلوں پر مشتمل ہے۔ یہ مجموعہ عارف نقوی کی جائے پیدائش لکھنئو کے کسی بھی  زبان کے شاعر کا جرمن زبان میں پہلا مجموعہ ہے۔
اتوار 19 اپریل کی شام کو برلن کے علاقے لچٹن برگ کے ایک ثقافتی مرکز ناخ بار شافٹ میں برلن کے ادبی و ثقافتی حلقوں کے لوگ  بڑی تعداد میں اس مجموعے کی رسم اجراء کی تقریب میں جمع ہوئے اور اردو  اور جرمن زبانوں میں عارف نقوی کی نظمیں، غزلیں اور ان پر لوگوں کے تبصرے سنے۔
نظامت کے فرائض ادا کرتے ہوئے ثقافتی مرکز کی انچارج محترمہ سَمَر لاٹے نے مہمانوں کا خیرمقدم اورجلسے کا آغاز کیا اور مغنی دھیرج رائے سے اردو میں گیت پیش کرنے کی درخواست کی جنہوں نے ہارمونیم پر عارف نقوی کا لکھا اور کمپوز کیا ہوا ایک گیت اپنی مدھرآواز میں سنایا۔ اس کے بعد  برلن کی فری یونیورسٹی کے ایتھنولوجی ڈیپارٹمنٹ کے سابق صدر پروفیسر جارج فیفَر نے، جنہوں نے عارف کی کتاب پر پیش لفظ لکھا ہے، تقریر کرتے ہوئے تفصیل سے اپنی رائے دی۔ پرو فیسر فیفر نے ، جو اپنی نوجوانی کے زمانے میں کئی برس لاہور میں رہ چکے ہیں اور اردو زبان و شاعری کے مزاج سے واقف ہیں، تفصیل سے لکھنئو، اس کی تہذیب اور حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ عارف نقوی نے ان سب سے کافی اثر لیا ہے۔ عارف نقوی ایک درویش کی طرح ہیں جس کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا، جو امن اور آشتی کا متلاشی ہوتا ہے۔ جس کا دل سب جگہ رہتا ہے اور دل میں سب کا درد ہوتا ہے۔ پروفیسر فیفر نے عارف نقوی کا شمار بہترین شاعروں میں کیا اور امید ظاہر کی کہ ان کی جرمن نظموں کا مجموعہ جرمنی میں بھی مقبول ہوگا۔
اس کے بعد ایک جرمن ریڈیو جرنلسٹ اَنتئے اسٹیبیتس نے عارف نقوی کی نظم احساس کا جرمن ترجمہ پڑھکر سنایا جو کافی پسند کیا گیا۔
اردو انجمن برلن کے نائب صدر انور ظہیر نے اپنی تقریر میں کہا کہ عارف نقوی کا جرمن زبان میں شعری مجموعہ اپنی نوعیت کی ایک نئی اور اہم موثر کن تاریخی اہمیت کی تصنیف ہے۔ پہلی بار کسی اردو شاعر کی اتنی نظمیں اور غزلیں جرمن زبان میں ایک ہی کتاب میں منظر عام پر آئی ہیں اور وہ بھی برلن میں۔ عارف نقوی کا نام اردو ادب کے حوالے سے یورپ، مشرق وسطیٰ،پاکستان  اور بھارت میں جانا جاتا ہے، لیکن یہاں ہم برلن والوں کی یہ خوش قسمتی ہے کہ عارف نقوی اردو ادب کی ایک ممتاز اور بزرگ شخصیت ہم لوگوں کے درمیان موجود ہے اور وہ نہ صرف اردو ادب کے لئے بلکہ ہم سب کے لئے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔ میں یہ کہ سکتا ہوں کہ اردو شاعری میں جو دسترس اور مقام ان کو حاصل ہے وہ کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔ عارف نقوی خوبصورت لب ولہجہ میں جب اپنے اشعار پیش کرتے ہیں تو ان کی بات ہمارے دلوں کی گہرائیوں تک اثر کرتی چلی جاتی ہے۔ ان کی نظمیں ہون یا غزلیں وہ سماجی انصاف، انسانیت، دوستی، امن و امان اور دنیا میں پیار و محبت کے طلبگار نظر آتے ہیں۔ان کی شاعری میں ہر رنگ موجود ہے۔ چاندنی رات میں غربت کی جھلک دیکھنے کی طاقت آپ ہی میں ہے۔ خار اور گُل میں عارف نقوی کی 82 اردو نظموں اور غزلوں کے جرمن ترجمے ہیں جو بڑی حد تک جرمن شعری انداز میں ہیں۔ ان کو پڑھتے ہوئے آپ ان کے قلم سے نکلے ہوئے جوار بھاٹا میں ایسے گم ہو جائیں گے کہ آپ کو پتہ ہی نہیں لگے گا کہ وقت ان کی نگارشات کے علاوہ بھی آپ سے کسی اور چیز کا طالب ہے۔
اس کے بعد عارف نقوی کی بیٹی نرگس نے اپنے والد کی زندگی کے دلچسپ پہلوئوں اور شہر لکھنئو اور عارف کی ننہال پنجابی ٹولہ اور ددھیال چکبست روڈ کی منظر کشی کی، جنہوں نے عارف نقوی کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا ہے اور ان کی ادبی نشو نما میں اہم رول ادا کیا ہے۔ خصوصاً نمبر ایک چکبست روڈ میں ان کے گھر کا چمن جو سب کے لئے کھلا ہوا تھا، جہاں وہ اپنے چچا کے ساتھ رہتے تھے۔
اس کے بعد  سارہ ظہیر نے عارف نقوی کی ایک نظم چمن چمن میں اور دوسری نظم ایک لڑکی کے منظوم جرمن ترجمے پڑھکر سنائے اور داد حاصل کی۔
چائے کے وقفے کے بعد دوسرا دور بنگالی مغنیہ میتالی مکھرجی کی شیریں آواز سے شروع ہوا، جس نے عارف نقوی کا لکھا اور کمپوز کیا ہوا گیت کیرم کا ہے کھیل نرالا ہارمونیم پر سنایا۔ میتالی کی مدھر آواز کے ساتھ ہال میں موجود بہت سے لوگوں نے مل کر یہ گیت گایا۔ اس کے بعد میتالی نے رابندر ناتھ ٹیگور کا ایک گیت پگلا ہوار بادل دنے پیش کیا۔
ریڈیو جرنلسٹ اور شاعرہ باربرا لیمکو نے عارف نقوی کی دو نظمیں  تکرار  اور وطن پیش کیں، جو خاص طور سے پسند کی گئیں۔
اردو انجمن کے سکریٹری اُووے فائلباخ نے عارف نقوی کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ اردو نظموں، خصوصاً غزلوں کا جرمن زبان میں ترجمہ کرنا آسان نہیں ہے۔ اردو شاعری اپنے خوبصورت استعاروں اور تشبیہات کی وجہ سے چاشنی ہی نہیں دیتی بلکہ انسانیت اور امن کے پیغام سے بھی متاثر کرتی ہے۔ عارف نقوی کی شاعری ہمارے دلوں میں اتر جاتی ہے۔ یوں تو اردو ادیبوں کی تخلیقات کا ترجمہ جرمن زبان میں ہوتا رہا ہے جیسے اقبال کا یا کرشن چندر، پریم چند اور خواجہ احمد عباس کا، لیکن یہ پہلا موقعہ ہے کہ کسی اردو شاعر کا جرمن زبان میں پورا مجموعہ سامنے آیا ہے، جس میں عارف نقوی کی 82 خوبصورت نظمیں اور غزلیں ہیں۔
جرمن براڈکاسٹنگ سروس ڈائچے ویلے کے ایشیائی شعبے کے سابق صدر ڈاکٹر فریڈیمان شیلندر نے جلسے میں بولتے ہوئے عارف نقوی کی ادبی، ثقافتی اور صحافتی خدمات کی تعریف کی اور بتایا کہ 1962 سے وہ عارف نقوی سے واقف ہیں جب عارف نقوی برلن کی ہمبولٹ یونیورسٹی میں استاد تھے اور فریڈیمان شیلندر عارف نقوی کے شاگرد تھے۔ وہ اس وقت سے عارف نقوی کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں سے متاثر ہوئے ہیں۔
فیڈرل ری پبلک جرمنی کے سابق سفیر ڈاکٹر کارل فشرنے، جن کی پیدائش ہندوستان میں ہوئی تھی اور برسوں ہندوستان اور پاکستان میں رہ چکے ہیں،عارف نقوی سے اپنی پرانی واقفیت  کا حوالہ دیتےہوئے ان کی شخصیت اور شاعری کی تعریف کی اور اس کتاب کی اہمیت پر زور دیا۔
بنگالی پروفیسر ڈاکٹر سنیل سین گپتا نے اپنی تقریر میں بتایا کہ جرمنی آنے سے قبل 1958 سے وہ عارف نقوی کی نظمیں اور غزلیں سنتے رہے ہیں اور ان کی تخلیقات اور خیالات سے متاثر ہوئے ہیں۔
اس کے بعد عارف نقوی نے شکریہ ادا کرتے ہوئے خاص طور سے ان کوگوں کا ذکر کیا جنہوں نے ان کی نظموں کے جرمن ترجمے میں مدد کی ہے۔ انہوںنے امید ظاہر کی کہ ان کی باقی نظموں اور غزلوں کے جرمن زبان میں ترجمے بھی سامنے آئیں گے۔
برلن کے ہر دلعزیز گلوکار  اور بنگالی شاعر دھیرج رائے نے عارف نقوی کی کئی مختصر نظموں کے جرمن اور بنگالی زبان میں ترجمے  پڑھکر سنائے اور کہا کہ وہ اردو شاعری سے بہت متاثر ہیں اور عارف نقوی کی نظموں میں جو پیغام اور دھڑکنیں ہیں ان سے متاثر ہو کر وہ عارف نقوی کی نظموں کا بنگالی زبان میں ترجمہ کر رہے ہیں اور اب تک ان کی آٹھ 8 نظموں کا ترجمہ کر چکے ہیں۔
جلسے کا اختتام عارف نقوی کی غزل سے  ہوا، جو انھوں نے پہلے جرمن زبان میں اور پھر حاضرین کی فرمائش پر اردو میں ترنم سے سنائی۔ جس کے چند اشعار اس طرح ہیں:
            اے  رب العالمین  یہ  کیسی  بہار  ہے               
 کوندے لپک رہے ہیں فلک شعلہ بار ہے
ایسی ہوا چلی ہے کہ گلشن میں ہر طرف                                       
 جس پھول کو بھی دیکھتا ہوں داغدار ہے   
  رسنے لگے ہیں آبلے پیروں کے اس گھڑی                                        
ہر سمت  ریگزار  یہاں  خارزار  ہے
اتنا  بہا ہے خون میرا اس دیار میں                                              
گزرا ہوں میں جدھر سے ادھر لالہ زار ہے      
دورِ خزاں ہے اور چہکتا ہے عندلیب                                            
فصلِ بہار آئے گی  یہ  انتظار  ہے
عارف کے لب کھلے بھی نہ تھے سر قلم ہوا
رودادِ  دل لہو سے  یہاں آشکار  ہے

(رپورٹ: انور ظہیر رہبر، برلن جرمنی)

 

 

 

 

 

عارف نقوی کا شعری مجموعہ

کھلتی کلیاں

رسم اجرا 2 جون 2013، اردو انجمن برلن

تعارفی جلسہ 10 اکتوبر 2013، دہلی یونیورسٹی، ذاکر حسین کالج

رسم اجرا 27 اکتوبر 2013 محمد علی جوہر فائونڈیشن لکھنئو

                        ایک جائزہ   

                                          قدسیہ خواجہ     ( ٹیلٹو جرمنی)

 

( 2 جون 2013 کو برلن میں کھلتی کلیاں کی رسم اجراء کے موقعے پر پڑھا گیا مضمون)

 

محترم عارف نقوی کا نیا شعری مجموعہ " کھلتی کلیاں" جسے وہ " شعری سندیسے" کہتے ہیں، اس وقت میرے پاس ہے اور مجھے اس کتاب پر کچھ کہنے کا مشکل ترین کام سونپا گیا ہے، گویا چراغ کو روشنی دکھانے کا عمل میرے ذمے لگایا گیا ہے۔ میں اسے اپنی خوش قسمتی  سمجھتی ہوں کہ یہ کام میرے حصے میں آیا ہے۔ لیکن یہ ایک کٹھن مرحلہ ہے کیونکہ عارف نقوی صرف عارف نقوی ہوتے تو شاید کچھ کہنے میں آسانی ہوجاتی لیکن انکی شخصیت اپنی ذات میں خود ہی ایک انجمن ہے اور ہر پہلو میں کچھ کہنے کے لئے مجھے ایک طویل دورانیے کی ضرورت ہوگی۔

 

 

عارف نقوی کو اردو ادب کا شاید ہی کوئ شیدائ ہو جو نہ جانتا ہو۔ ڈاکڑ ودیا ساگر آ نندعارف نقوی کے بارے میں لکھتے ہیں:

"سب سے پہلے تو یہ طے کرنا ہوگا کہ عارف نقوی ہیں کیا۔ کبھی تو وہ ایک افسانہ نگار کے روپ میں سامنے آتے ہیں اور ایسی نادر کہانیاں پیش کرتے ہیں کہ انسان چونک پڑتا ہےاور عش عش کرنے لگتا ہے۔ کبھی اپنے اہم تاریخی مضامین سے ہمیں چونکاتے ہیں۔ کبھی ان کی نظمیں اور غزلیں ہمارے دلوں میں اتر کر ہمیں تڑپاتی ہیں اور کبھی وہ ایک بہترین ڈرامہ نگار اور اداکار کی حیثیت سے سب کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں اور داد حاصل کرتے ہیں۔  یوں سمجھئے کہ ان کی ذات میں لاتعداد شخصیتں موجود ہیں اور ہمارے لئے یہ مشکل ہوجاتا ہے کہ انھیں کسی ایک دائرہ میں محدود کرکے اپنی رائے دیں ۔"

 

 

برلن، جرمنی، یورپ، مشرق وسطی، پاکستان اور بھارت میں عارف نقوی کا نام اردو ادب کے  بے شمار استادوں اور طالب علموں کے دلوں پر راج کررہا ہے۔ لیکن ہم برلن والوں کی یہ خوش قسمتی ہے کہ عارف نقوی اردو ادب کی ایک ممتازاور بزرگ شخصیت ہم لوگوں کے درمیان ہے اور وہ نہ صرف اردو ادب کے لئے بلکہ ہم سب کے لئے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔ میری بھی بڑی خوش نصیبی ہے کہ میں نہ صرف انکی کتابوں کو پڑھ چکی ہوں، پڑھ رہی ہوں بلکہ اردو انجمن اور برلن کے دوسرے پروگراموں میں انکو براہ راست سنتی بھی رہی ہوں، اسی لئے یہ کہہ سکتی ہوں کہ اردو شاعری میں جو دسترس اور مقام ان کو حاصل ہے وہ کسی کسی کو نصیب ہوتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے انکی غزل کے یہ دو اشعار

 

 

بشر کو چین نہیں شام اور سحر کے لئے

یہ  جدوجہد ہے اک عمر مختصرکے لئے

نتیجہ کیا ہو خدا    جانے کاوش   دل  کا 

دعائیں عرش پہ جانے لگیں اثرکے لئے

 

 

خوبصورت لب ولہجے میں جب آپ اپنی شاعری کو لوگوں میں پیش کرتے ہیں تو انکی بات دلوں کی گہرائیوں تک اثر کرتی چلی جاتی ہے۔ نظمیں ہوں یا غزلیں وہ  سماجی انصاف، انسانیت، دوستی، امن وامان اور دنیا میں پیار و محبت کے ہی طلبگار نظر آتے ہیں۔ چاند رات کی چاندنی میں غربت کی انوکھی جھلک دیکھنے کی طاقت آپ ہی میں پائ جاتی ہے۔  نظم "رات" میں کس خوبصورتی سے برملا اظہار کرتے ہیں

رات میری بھی ہے

تیری بھی ہے

میخواروں کی

کہیں گھنگھرو کہیں بربط

کہیں پروانوں  کی

لیکن

پیٹ خالی ہو تو یہ رات ہے مانند قہر

 

 

دنیا میں پھیلی ہوئ بربریت اور وحشت ان کو ہر قدم پر جھنجھوڑتی نظر آتی ہے اسی لئے وہ اسکو موضوع بنا کر اپنی بات کہہ جاتے ہیں۔

 

 

چھڑ گئ جنگ تو آکاش کے تاروں کی قسم

میکدہ ساز نگاہوں  کے اشاروں کی قسم

رقص کرتی ہوئ پائل کی صداؤں کی قسم

مسکراتے ہوئے پھولوں کو نہ چومے گا کوئ

جگمگاتے ہوئے تاروں کو نہ دیکھے گا کوئ

 

اور پھر آگے چل کر لکھتے ہیں

 

کتنے سوئے  ہوئے لوگوں کو جگانا  ہوگا

یعنی       انسان کو     انسان     بنانا   ہوگا

 

وطن کی بے انتہا محبت عارف نقوی کے دل کو انکے شہر لکھنؤ کی ہر وقت سیر کراتی رہتی ہے۔ لیکن وہ وطن کی محبت میں بالکل خود غرض نہیں ہوجاتے اسی لئے کیا خوب لکھتے ہیں کہ

 

وطن کے واسطے دار و رسن  کو چوم  کر کہنا

جمال  رخ پہ تیرے خود  کو میں قربان کرتا ہوں

 

لیکن

 

وطن کے نام پر اوروں کی دنیا مت مٹا دینا

ستمگر بن کے تم لفظ وفا  کومت بھلا دینا

وطن کے نام پر داغ عداوت  مت  لگا دینا

 

وطن پر اتنی انوکھی  اور جدت پسندی یہ عارف نقوی کا ہی کمال ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ نہ صرف ان کا کمال ہے بلکہ بے باکی ہے کہ اس خوبصورتی سے وطن کی محبت بھی جگا دی لیکن یہ بھی بتادیا کہ سنبھل کر ہر کسی کا کوئ نہ کوئ وطن ہے۔

 

 

جیسا کہ میں  پہلے ہی بتا چکی ہوں عارف نقوی کی شاعری بے انتہا موضوعات سے مزین ہے۔ اور اس میں آپ کی شخصیت کی بزلہ سنجی مزید نکھار پیدا کردیتی ہے۔  نظم داد سخن میں آپ کیا خوب لکھتے  ہیں

 

میں نے بھرتی کے کئ شعر سنائے ان کو

پھر بھی ہر شعر پہ وہ داد دئے جاتے ہیں

بزم افکارہے یہ کچھ بھی پڑھو کچھ بھی کہو

پھر بھی ہر شعر پہ وہ داد دیے جاتے ہیں

 

 

         

غرض یہ کہ ان کی شاعری میں ہر رنگ موجود ہے۔ ان کا یہ مجموعہ " کھلتی کلیاں" ایک جاذب نظر سرورق کے ساتھ خوبصورت سندیسہ ہے جس کے پیش لفظ میں وہ خود لکھتے ہیں کہ " میں نے پھولوں کے حسن اور خوشبو سے جو کچھ پایا ہے اسے " کھلتی کلیاں" کے روپ میں آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں اس امید میں کہ شاید آپ گلشن کی رعنائ کو گلچیں کے بے رحم ہاتھوں سے بچا سکیں گے ۔"

 

 

میں سمجھتی ہوں کہ انھوں نے اپنے قارئین کو واضح پیغام دیا ہے جس میں ہر ایک بات پنہاں ہے۔ جو دل دماغ ذہن اور سوچنے والے کے دل کو متاثر کرتی ہے۔  ان کے اس مجموعہ کلام میں تقریبا 43 نظمیں ہیں اور کم وبیش اتنی ہی غزلیں بھی۔ اس مختصر سے وقت میں ان کی ان کاوشوں کے بارے میں، میں مکمل اور جامع معلومات پہنچانے سے قاصر ہوں  اور شائد ایسا ہی بہتر ہے کیونکہ جب آپ اسے پڑھیں گے تب آپ عارف نقوی کے قلم سے نکلے الفاظ کے جوار بھاٹا میں ایسے گم ہوں گے کہ آپ کو پتہ ہی نہیں چلے گا کہ وقت آپ سے انکی نگارشات کے علاوہ کسی اور بھی چیز کا طالب ہے۔

 

عارف نقوی کے اس دیوان میں جن جن نظموں نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا انکے نام میں ضرور لینا چاہوں گی۔ ان کی ںظم رات، تکرار، احساس، ایک لڑکی، وطن، مادر وطن، عید، غریب کی عید، شب تاریک، ایک بچی کا سوال اور فنکار جدید اپنی مثال آپ ہیں۔ اس میں عارف نقوی  کی قلم پرمکمل  گرفت کا بھرپور انداز دیکھا جاسکتا ہے۔

 

عارف نقوی کی یہ بارہويں کتاب ہے ۔ ابتک آپ کی گیارہ کتابوں میں افسانے، ڈرامے، تاریخی جائزے اور انکی یادوں پر مشتعمل کتابیں شامل ہیں۔ آپ کا یہ دیوان بھی دوسری تمام تر کتابوں کی طرح ان کو اردو ادب کے افق پر ایک ممتاز درجہ دیتا ہے ۔ اتنی ساری کتابوں کے مالک ہونے کے باوجود جو چیز ان کو دوسروں سے منفرد بناتی ہے وہ ان کے مزاج کی عاجزی ہے۔ جو انکا قداور بھی اونچا کردیتی ہے۔  میں اپنی طرف سے اور اردو انجمن کے دوسرے تمام ساتھیوں کی طرف سے انھیں اس خوبصورت کاوش پر ڈھیروں مبارک باد پیش کرتی ہوں اور خدا وند سے دعا گو ہوں کہ مولا آپ کو صحت و تندرستی سے مالا مال کرے تاکہ وہ اردو ادب کی یوں ہی خدمت کرتے رہیں (آمین) ۔

 

 

Khilti Kaliyan

 

Gedichtband von Arif Naqvi

Eine Betrachtung von Qudsia Khwaja

Teltow, Deutschland

 

Deutsche Übersetzung

Von

Sarah Zaheer

 

Übersetzung:  Syeda Sarah Zaheer

 

Nun fasse ich für Sie das bereits auf Urdu Vorgetragene zusammen.

Um über den Gedichtsband von Arif Naqvi, den Präsidenten des Urdu Fördervereins, mit dem deutschen Titel "Blühende Knospen" zu sprechen, muss man weit ausholen. Auch Dr. Vidya Sagar Anand sagt, dass man vorerst definieren muss, wer Arif Naqvi überhaupt ist. Ist er ein Schriftsteller? Ein Historiker, ein Dichter, ein Schauspieler? Da er so vielseitig talentiert ist, ist es schwierig sich auf eine Seite zu konzentrieren.

Berlin, Deutschland, Europa, auch im Nahen Osten, Pakistan und Indien ist sein Name in der Urdu Literatur bekannt. Wir können uns sehr glücklich schätzen, dass eine so bedeutsame Person für die Urdu Literatur zwischen uns sitzt und ich fühle mich auch sehr geehrt, dass ich seine Bücher lesen durfte, lesen darf und ihn direkt hier und bei ähnlichen Veranstaltungen antreffen und seinen Darbietungen zusehen und zuhören kann. Aus diesen Gründen kann ich versichern, dass er eine hohe Wichtigkeit für die Urdu Literatur einnimmt.

 

Die Menschheit, so rastlos von früh bis spät

So viel passiert in einem so kurzen Leben

Was wird wohl das Ergebnis sein, des Herzens Verlangen?

Ich schicke mein Flehen nach oben

 

Ähnliche Verse von ihm handeln meist von sozialer Gerechtigkeit, Menschlichkeit, Frieden, Freiheit, Freundschaft und den Glauben an Liebe und Hoffnung.

Wenn andere bei Vollmond nur an dessen Schönheit denken, so vergisst er trotzdem nicht das Elend, was viele umgibt.

 

Diese Nacht gehört dir, sie gehört mir

Sie gehört denen, die in den Morgen tanzen,

man hört den Klang ihrer Fußketten, das Surren der Nachtfalter

Doch wenn der Bauch vor Leere schreit,

so bringt die Nacht nur Vergeltung

 

Auch Krieg, Ungerechtigkeiten und Leid beschäftigen ihn und kriegen Ausdruck in seinen Gedichten

 

Bei den Sternen des Himmels schwöre ich,

wenn der Krieg beginnt,
geht keiner abends aus und tanzt,

küsst keiner die lächelnden Blumen,

keiner betrachtet die leuchtenden Sterne.
So lasst uns die Schlafenden wecken,

um aus dem Menschen wieder ein Mensch zu machen.

 

Da er in Lucknow geboren und aufgewachsen ist, ist auch die Heimat ein zentraler Aspekt in seinen Überlegungen. Allerdings zeigt er eine neuartige Sicht, die besagt dass man um seine eigene Heimat zu schützen niemals eine andere Heimat zerstören soll.

Dies ist sein zwölftes Buch, seine vorherigen Bücher beinhalteten Gedichte, Balladen, Theaterstücke, Historische Erzählungen und Anekdoten aus seinem Leben.
Auch dieses Buch ähnelt den anderen und gibt der Urdu Poesie einen neuen Wert.

Trotz der Tatsache, dass er schon so viele Bücher veröffentlicht hat, so hat dies keine Auswirkungen auf die Art und Weise wie er mit den Menschen und seiner Umgebung verkehrt.

 

Ich selbst und alle Freunde des Urdu Anjumans beglückwünschen ihn zu seinem neuen wunderschönen Werk. Wir beten für seine Gesundheit und dafür, dass er uns mit seiner Poesie auch weiterhin verzaubert.

 

Und nun möchten wir das Buch auch sehen und bitten dafür den Autor persönlich auf die Bühne.

 

 

(Vorgetragen bei der Feier zum 100. Geburtstag von Ali Sardar Jafri

Am 02.06.2013 im „PallasT“, Pallasstr.35 Berlin-Schöneberg)

انسان ابھی زندہ ہے

  


عارف نقوی





نیم کے پیڑ تلے
زرد پتوں میں دبے
گرد اٹے
خاک سنے
سوچتا ہوں

میں مغنی تھا ہمہ وقت چہکتا تھا میں
گنگناتا  کبھی  للکار سناتا تھا میں
میں ہںساتا تھا  رلاتا تھا  جگاتا تھا میں
درد کے ساز سے دنیا کو ہلاتا تھا میں
گیت شعلے تھے تو اشعار میں الفت کی ندا
میرے افسانوں میں مظلوم کی آہوں کي صدا
میں مجاہد تھا، معلم تھا،  صحافی تھا میں
ایک فنکار تھا دل کھول کے رکھ دیتا تھا
میرے الفاظ تھے دنیا کو پیام الفت
میرے ا فکار تھے انساں کی بقا اور نجات
امن و انصاف و مساوات کے  پنہاں سرگم
نور کے سانچے میں صد رنگ چمن حسن جہاں
اب نہ شاعر ہوں  نہ فنکار و صحافی ہوں میں
میں معلم بھی نہیں درس کے قابل بھی نہیں
تھک گیا ہوں میرے الفاظ میں قوت بھی نہیں
مر گیا ہوں میرے اعصاب میں حرکت بھی نہیں
جسم خاموش ہے اب کوئ مداوا بھی نہیں
نیم کے پیڑ تلے
زرد پتوں میں دبے
گرد اٹے
خاک سنے
سوچتا ہوں

دل یہ کہتا ہے کہ انسان ابھی زندہ ہے
تو بھی زندہ  ترا ایمان ابھی زندہ ہے
تیری تربت پہ ابھی مرثیہ خوانی ہو گی
پھول مہکیں گے کبھی نغمہ سرائ ہو گی
خواب جاگیں گے ترے
رنگ جہاں بدلے گا
نوع انسان کے جینے کا چلن بدلے گا

دل یہ کہتا ہے کہ انسان ابھی زندہ ہے
تو بھی زندہ  ترا ایمان ابھی زندہ ہے



عارف نقوی
برلن  10۔02۔2013

*

تکرار

کل شیخ و برہمن میں جو تکرار ہوئی ہے

حیراں ہیں فرشتے کہ یہ کیا بات ہوئی ہے

شیطاں کو خوشی ہے کہ خرافات ہوئی ہے

کھائی تھی قسم اس نے کہ انساں کو ستائے

آدم سے عداوت ہے تو بندوں کو مٹائے

 

پنڈت نے ہری اوم کہا اور یہ بولا

مالا میرے ہاتھوں میں ہے بھگوان ہے میرا

ملا نے کہا دیکھ یہ آکاش یہ تارے

اللہ کی تخلیق کے تابندہ نظارے

میناروں سے اٹھتے یہ اذانوں کے اشارے

میرے ہیں کہ تیرے ہیں، ہیں کس کے سہارے

پنڈت نے کہا سورج، دھرتی یہ ستارے

بھگوان کی رچنا کے ہیں روشن یہ نظارے

مندر کے گجر نیر میں رقصاں یہ شرارے

یہ درسِ مناجات یہ گنگا کے کنارے

میرے ہیں کہ تیرے ہیں ، ہیں کس کے سہارے

 

تکرار بڑھی اور بڑھی اور بڑھی اور

پیکار بڑھی اور بڑھی اور بڑھی اور

ملا نے کہا اللہ

پنڈت نے کہا بھگوان

 

آئی یہ صدا غیب سے

اے احمق و نادان

دو بول میں محدود نہ کر نامِ خدا کو

نفرت ہے ترے دل میں

انساں سے عداوت

نہ تیرا ہوں میں تیرا

نہ تیرا ہوں میں تیرا

عارف نقوی

 

 

 

لاحول

عارف نقوی
 

 

 مجھ سے کہتا ہے کہ ایمان کو تازہ نہ کرو
کلمہء پاک نہ پیغام محمد کو سنو
پنجتن پاک کے کردار کا پالن نہ کرو
جس نے کونین بنایا اسے آقا نہ کہو
ذرے ذرے میں نماياں ہیں جو جلوے رب کے
بن کے نابینا کرامات خدا مت دیکھو

مجھ سے کہتا ہے کہ انسان مجسم نہ بنو

دل کے کاشانے میں قند یل کو روشن نہ کرو
جہل کی قید میں ظلمت کی سلاخوں میں رہو
پھول کو خار کہو خار کو کلیاں سمجھو
آیتیں ورد کرو ان کو نہ سمجھو بو جھو
مجھ سے کہتا ہے کہ اد راک سے بے بہرہ رہو
ظلم کو ظلم نہ شیطان کو فتنہ سمجھو
پاکبازوں سے فقیروں سے نہ ناطہ جوڑو
زرگری فتنہ گری خون گری شرو فساد
قہر بن جاؤ جہانوں پہ شرربار بنو
مجھ سے کہتا ہے اگر شاہ جہاں بننا ہے
نعرہء بغض لگاؤ جو تمھیں بڑھنا ہے
قوم کو طیش دلاؤ کہ اسے لڑنا ہے
کربلا اور بناؤ کہ ستم کرنا ہے
خون کچھ اور بہاؤ کہ یہی سستا ہے
خود کو شیطان بناؤ کہ یہی رستہ ہے


مجھ سے کہتا ہے مساوات کا پرچم نہ بنو
امن و انصاف کی اخلاص کی باتبں نہ کرو
ایٹم و ڈالر و ایرو کے گھنے ساۓ میں
مکر اور جھوٹ کے ایوان سجانا سیکھو

نیک لوگوں کو گناہوں میں پھنسانا سیکھو


ہے وہ شیطان تو باتیں بھی وہی کرتا ہے
نوع انساں کی تباہی کا سبب بنتا ہے
میرے احساس کی جذ با ت کی توہین ہے یہ
اس لۓ شکر خدا عظمت انساں کی قسم

اس کی ہر بات پہ لاحول پڑھا کرتا ہوں۔
 

*

 

           تلخیئ زیست
            عارف نقوی
       
        زرد جیسے کہ مہتاب شب تنہائی
        جھاگ دوشیزہءشب تاب کا الھڑ جوبن
        جذبہءشوق جوانی کا خمار
        بیئر کا گلاس
        سب کچھ ہے لیکن
        ذہن و ادراک کے پردے پہ گرانبار ہے یہ
        دوستو آج مجھے جام مے ناب نہ دو لمحہءمہلت دے دو
        تاکہ میں سوچ سکوں
        یاد کروں
        غور کروں
        لذت زیست کی گہرائی میں پنہاں تلخی
        جذب دیدار کروں
        میرے کوچے میں کئی گھر ہیں
        غریبان وطن کے مسکن
        رام دھن میرے پڑوسی کا چہیتا بیٹا
        بھوک اور پیاس سے کٹیا میں پڑا روتا ہے
        ذہن و احساس کے پردے پہ تھپک ہوتی ہے
        رہ رہ کے دھمک ہوتی ہے


        دوستو آج مجھے جام مے ناب نہ دو
        لمحہءمہلت دے دو
        تاکہ میں سوچ سکوں
        یاد کروں
        غور کروں
        تاکہ انسان بنوں

 

*

احساس

چند تنکے  جو  سر راہ  پڑے  رہتے    ہیں

جن کے افلاس پہ ہنستا ہے نہ روتا ہے کوئی

آشیان   زغن  و زاغ    بنا سکتے         ہین

اور چاہیں  تو  جہانوں کو  جلا سکتے  ہیں

 

جند قطرے جو نگاہوں سے ٹپک پڑتے ہیں

خاک میں بے سر و سامان پڑے رہتے ہیں

بن کے دریا  وہ نئے کھیت اگا سکتے ہیں

نوع انسان کی  قسمت  کو جگا وکتے ہیں

 

خاک بس خاک ہے انسان کے قدموں کے تلے

اپنے دامن میں  زمانے کی  غلاظت کو  لئے

خاک کی کوکھ سے  انسان   اگا کرتے  ہیئ

مندر و  مسجد  و   مینار   بنا      کرتے ہیں

 

اور انسان کہ تنکا بھی ہے قطرہ بھی ہے

چاک دل جاک  جگر چاک گریباں بھی ہے

خود   کو پا جائے تو طوفان اٹھا سکتا ہے

آنکھ کہل جائے تو دنیا کو جگا سکتا ہے

عارف نقوي

*

غزل

 

 

 

 

 

 

یہ کیسی بہار ہے

 

اے رب العالمین     یہ   کیسی بہار ہے

کوندے لپک رہے ہیں فلک شعلہ بار ہے

 

کیسی ہوا چلی ہے کہ گلشن میں ہر طرف

جس پھول کو بھی دیکھتا ہوں داغدار ہے

 

رسنے لگے ہیں آبلے پیروں کے اس گھڑی

ہر سمت  ریگزار  یہاں   خارزار       ہے

 

اتنا  بہا   ہے   خون   میرا   اس    دیار میں

گزرا ہوں میں جدھر سے ادھر لالہ زار ہے

 

کہرام  ہے  مچا  ہوا  ہر سو  جہان   میں

پتھر برس رہے ہیں ہر اک سنگسار ہے

 

محو جمال دوست ہیں  اور یہ خبر نہیں

اک شمع جل رہی ہے عجب انتظار ہے

 

میت کو لا کے چھوڑ گۓ ریگزار میں

زاغ و زغن  ہیں یار  بدن تار تار ہے

 

واعظ چلا تھا  زعم میں  اللہ کی پناہ

ہوش و حواس گم ہیں قبا تار تار ہے

 

دور خزاں ہے اور چہکتا ہے عندلیب

فصل بہار آۓ  گی  یہ  انتظار  ہے

 

عارف کے لب کھلے بھی نہ تھے سر قلم ہوا

روداد دل   لہو  سے   یہاں    آشکار   ہے

 

عارف نقوی

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


Datenschutzerklärung
powered by Beepworld